جمہوریت میں ووٹرز کی رائے کو ہی مقدم سمجھا جاتا ہے‘چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ

پاکستان کے آئین میں لکھا ہے ووٹرز جس کوچاہیں اپنا نمائندہ منتخب کریں، آئین نے ووٹرز کو یہ حق دیاہے کہ وہ کسی ڈیفالٹر کو ووٹ دیں یا کسی نااہل کو ووٹ دیں، اگر اس پرکسی کو اعتراض ہے تو وہ پارلیمنٹ میں جا کر بات کرے ایسے معاملے میں عدلیہ میں نہ لائے جائیں اور عدلیہ کو مجبور نہ کیاجائے وہ آئین اور قانون چھوڑ کر اخلاقی بنیادوں پر فیصلے کرنے لگ جائے‘چیف جسٹس نے یہ ریمارکس انتخابی اصلاحات کے قانون مجریہ 2017کے تحت پولیٹکل پارٹیز ایکٹ میں ترمیم کے خلاف پاکستان عوامی تحریک کے راہنمااشتیاق چودھری کی درخواست کی سماعت کے دوران ریما کس

جمعہ 20 اکتوبر 2017 22:27

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 20 اکتوبر2017ء) ہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس مسٹر جسٹس سید منصور علی شاہ نے قراردیا ہے کہ جمہوریت میں ووٹرز کی رائے کو ہی مقدم سمجھا جاتا ہے، پاکستان کے آئین میں لکھا ہے کہ ووٹرز جس کوچاہیں اپنا نمائندہ منتخب کریں،آئین نے ووٹرز کو یہ حق دیاہے کہ وہ کسی ڈیفالٹر کو ووٹ دیں یا کسی نااہل کو ووٹ دیں، اگر اس پرکسی کو اعتراض ہے تو وہ پارلیمنٹ میں جا کر بات کرے لیکن ایسے معاملے میں عدلیہ میں نہ لائے جائیں اور عدلیہ کو مجبور نہ کیاجائے کہ وہ آئین اور قانون چھوڑ کر اخلاقی بنیادوں پر فیصلے کرنے لگ جائے،چیف جسٹس نے یہ ریمارکس انتخابی اصلاحات کے قانون مجریہ 2017کے تحت پولیٹکل پارٹیز ایکٹ میں ترمیم کے خلاف پاکستان عوامی تحریک کے راہنمااشتیاق چودھری کی درخواست کی سماعت کے دوران دیئے ۔

(جاری ہے)

فاضل جج نے مزید ریمارکس دیئے کہ کل کوئی عورت عدالت میںآجائے اورکہے کہ اسکا شوہر اس پر بہت تشدد کرتا ہے اور وہ کرپٹ بھی ہے لہذا اسے نااہل کیاجائے تو ایسا تسلیم نہیں کیا جا سکتا، ہر معاملے کا حل عدلیہ نہیں ہے۔آئین نے منتخب نمائندوں کے لئے آرٹیکل 62 ،63اوردیگر آرٹیکلز کے علاوہ انتخابی قوانین میں بھی شرائط و ضوابط طے کردی ہیں ، اگر اس کے علاوہ ارکان اسمبلی کیخلاف کسی کو شکایت ہے تو اس کیلئے پارلیمنٹ کا دروازہ ہی کھٹکھٹاناچاہیے۔

درخواست گزار کی طرف سے نکتہ اٹھایا گیا کہ میاں نوازشریف کو سپریم کورٹ نے نااہل قرار دیا لیکن قانون میں مذکورہ ترمیم کرکے انہیں دوبارہ مسلم لیگ (ن)کا صدر منتخب کرلیا گیا جو اخلاقی طورپر بھی درست نہیں ۔اس پر فاضل جج نے کہا کہ برا یا عجیب لگنے کی بنیاد پر قانون کالعدم نہیں کئے جاتے،عدالتیں اخلاقیات کے تحت نہیں بلکہ آئین اور قانون کے تحت فیصلے کرتی ہیں ۔

اس سے قبل وفاقی حکومت کی طرف سے ڈپٹی اٹارنی جنرل نصر مرزا نے عدالت کوبتایا کہ اسی معاملے پردرخواستیںسپریم کورٹ میں بھی زیر التواہیں، درخواست گزارکے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ مذکورہ ایکٹ کے ذریعے ایک نااہل شخص کو سیاسی جماعت کا سربراہ بنایا گیا ہے ، یہ اقدام بدنیتی پر مبنی ہے ،ہائیکورٹ اسکا جائزہ لے سکتی ہے، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آئین کے آرٹیکل 17کے تحت کسی بھی شخص کو سیاسی جماعت بنانے کا حق حاصل ہے، آئین میں اور انتخابی قوانین میں کہیں یہ نہیں لکھا ہوا کہ نااہل شخص یا ڈیفالٹر قرار دیا گیا شخص سیاسی جماعت نہیں بنا سکتا جس پر درخواست گزاروں کے وکلانے کہا کہ اخلاقی طور پر دیکھا جائے تو یہ بہت ہی عجیب ہے اور برا لگتا ہے کہ سپریم کورٹ نے جس شخص کو کرپشن پر نااہل کیا اس شخص کو قانون میں ترمیم کرکے سیاسی جماعت کا سربراہ بنا دیا گیا ہے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اخلاقی طور پر ہو سکتا ہے کہ کوئی بات عجیب یا بری لگے لیکن عدلیہ عجیب یا برے لگنے کی بنیاد پر نہیں بلکہ آئین اور قانون کے مطابق فیصلے کرتی ہیں، درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ عدالت نے ایک فلٹر بھی لگانا ہوتا ہے، اس طرح تو کوئی بھی دہشت گرد سیاسی جماعت بنا سکتا ہے جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ فلٹریشن عدلیہ کی ذمہ داری نہیں، یہ بات پارلیمنٹ میں لے کر جائیں اور پارلیمنٹ کوبتائیں کہ کیا درست اور کیا غلط ہے، عدلیہ ایسے معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتی ۔

فاضل جج نے کہا کہ آپ اخلاقی بنیادوں پر نہیں بلکہ آئین اور قانون کے مطابق دلائل دیں جس پر درخواست گزار کے وکیل نے استدعا کی کہ انہیں تیاری کے لئے مزید مہلت دی جائے، آئندہ سماعت پر وہ اخلاقی بنیادوں پر نہیں بلکہ قانون کے تحت دلائل دینگے جس پر عدالت نے کیس کی مزیدسماعت 14نومبر تک ملتوی کرتے ہوئے درخواست گزار کو ہدایت کہ باقی ملکوں میں قوانین کسی طرح ہیں، اس پربھی ریسرچ کر کے عدالت کی معاونت کریں۔