ذیلی کمیٹی بلوچستان کو نظر انداز کرنے پر وزارت قومی صحت کے حکام پر برس پڑی

بلوچستان میں کچھ نہیں ہورہا ، وہاں ڈاکٹر ہے نہ دوائی ،یہ پیسے کھا نے کے سوا کچھ نہیں کررہے، بندے مررہے ہیں، کیا بلوچستان اور خیبرپختونخواہ میں ٹی بی نہیں ،144 ملین ڈالر کی گلوبل فنڈنگ ہو رہی ہے ،کیا خاران میں ٹی بی نہیں آپ کو خیال نہیں آیا کہ ایک موبائل یونٹ ادھر بھی لے جائیں ،انڈس ہسپتال کو ادویات بھی یہ دیتے ہیں اور لیبارٹری کاسامان بھی ، 10ہزار ٹی بی کے مریض تو صرف لسبیلہ کے اندر ہیں ،ادویات کے مسئلے پر ڈریپ مسئلے کھڑے کرتا ہے،ڈریپ ڈیزل کے سوا چلتی نہیں ، نیشنل ٹی بی کنٹرول پروگرام کے کنٹری مینیجر کا ٹرا نسفرہو گیا ہے لیکن ابھی تک وہ اپنی سیٹ پر موجود ، یہ کوئی بنیئے کی دکان تھوڑی ہے ،ہم آج یہاں آئے ہیں اور حکومت کا پیسہ ضائع کر رہے ہیں اور یہ ہمیں الٹی سیدھی چیزیں سنا کر چلے جائیں گے، ان کو یہ پتہ نہیں کہ ٹی بی کی کون سی ادویات پاکستان میں میسر نہیں ہیں،کمیٹی کے اندر ہم آتے ہیں،ٹی اے ڈی اے لیتے ہیں آج اگر ٹی اے ڈی اے بند کر دیا جائے تو دیکھتے ہیں کہ کتنے بندے آتے ہیں کوئی آئے گا ہی نہیں سینیٹر اشوک کمار کا کمیٹی میں اظہار خیال

جمعہ 20 اکتوبر 2017 22:05

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 20 اکتوبر2017ء) سینیٹ کی ذیلی کمیٹی برائے قومی صحت بلوچستان کو نظر انداز کرنے پر وزارت قومی صحت کے حکام پر برس پڑی ، سینیٹر اشوک کمار نے کہا کہ بلوچستان میں کچھ نہیں ہورہا ہے نہ وہاں ڈاکٹر ہے نہ دوائی ہے یہ پیسے کھارہے ہیں اور کچھ نہیں کررہے بندے مررہے ہیں، کیا بلوچستان اور خیبرپختونخواہ میں ٹی بی نہیں ہے،ایک سو چوالیس ملین ڈالر کی گلوبل فنڈنگ ہو رہی ہے ،کیا خاران میں ٹی بی نہیں آپ کو خیال نہیں آیا کہ ایک موبائل یونٹ ادھر بھی لے جائیں ،انڈس ہسپتال کو ادویات بھی یہ دیتے ہیں اور لیبارٹری کاسامان بھی یہ دیتے ہیں، 10ہزار ٹی بی کے مریض تو صرف لسبیلہ کے اندر ہیں ،ادویات کے مسئلے پر ڈریپ مسئلے کھڑے کرتا ہے۔

ڈریپ ڈیزل کے سوا چلتی نہیں ہے، نیشنل ٹی بی کنٹرول پروگرام کے کنٹری مینیجر کا ٹرا نسفرہو گیا ہے لیکن ابھی تک وہ اپنی سیٹ پر موجود ہیں یہ کوئی بنیئے کی دکان تھوڑی ہے ،ہم آج یہاں آئے ہیں اور حکومت کا پیسہ ضائع کر رہے ہیں اور یہ ہمیں الٹی سیدھی چیزیں سنا کر چلے جائیں گے، ان کو یہ پتہ نہیں کہ ٹی بی کی کون سی ادویات پاکستان میں میسر نہیں ہیں،کمیٹی کے اندر ہم آتے ہیں اور ٹی اے ڈی اے لیتے ہیں آج اگر ٹی اے ڈی اے بند کر دیا جائے تو دیکھتے ہیں کہ کتنے بندے آتے ہیں کوئی آئے گا ہی نہیںجمعہ کو سینیٹ کی ذیلی کمیٹی برائے صحت کا اجلا س کنوینئیر سینیٹر غوث محمد خان نیازی کی صدارت میں ہوا، جس میں سینیٹر اشوک کمار کی جانب سے نیشنل ٹی بی کنٹرول پروگرام کے کنٹری مینیجر ڈاکٹر ناصر محمودکے بارے میں ااستفسار کیا گیا جس پرمتعلقہ حکام نے بتایا کہ وہ اس وقت ملک میں نہیں ہیں اشوک کمار نے کہا کہ ان کا ٹرا نسفرہو گیا ہے لیکن ابھی تک وہ اپنی سیٹ پر موجود ہیں یہ کوئی بنیئے کی دکان تھوڑی ہے 22جولائی کو ان کا ٹرنسفر ہوا ہے لیکن ابھی تک وہ اپنی سیٹ پر ہیں ،ہم آج یہاں آئے ہیں اور حکومت کا پیسہ ضائع کر رہے ہیں اور یہ ہمیں الٹی سیدھی چیزیں سنا کر چلے جائیں گے اشوک کمار نے کہا کہ کمیٹی کے اندر ہم آتے ہیں اور ٹی اے ڈی اے لیتے ہیں آج اگر ٹی اے ڈی اے بند کر دیا جائے تو دیکھتے ہیں کہ کتنے بندے آتے ہیں کوئی آئے گا ہی نہیں ،اس موقع پر اجلاس میں متعلقہ حکام کی جانب سے بریفنگ دی گئی کہ دنیا میں 30ممالک میں ٹی بی کے حوالے سے پاکستان چھٹے نمبر پر ہے 2016میںپاکستان میں 5لاکھ10ہزار ٹی بی کی کیسز موجود تھے۔

(جاری ہے)

جن میں سے 3لاکھ 66ہزار لوگوں کا علاج کیا گیا ٹی بی کا علاج 20سے 24ماہ کے اندر ہوتا ہے،پاکستان میں ٹی بی کنٹرول پروگرام 2000ء میں شروع کیا گیااور اس وقت سے اب تک چل رہاہے۔2003میں پہلی گلوبل فنڈنگ پاکستان میں آئی جو کہ 1.2ملین کے قریب تھی،بریفنگ میں بتایا گیا کہ ہمارے پاس کیش فنڈکم آتے ہیں۔ زیادہ تر ادویات درآمد کی جاتی ہیں جو پاکستان میں میسر نہیں ہیں۔

سینیٹر اشوک کمار نے استفسار کیا اس وقت کون سی ادویات پاکستان میں میسر نہیں ہیں ان کو یہ پتہ نہیں کہ ٹی بی کی کون سی ادویات پاکستان میں میسر نہیں ہیں۔ڈپٹی نیشنل منیجرٹی بی کنٹرول پروگرام نے بتایا کہ 2018سے 2020تک گلوبل فنڈنگ سے 144ملین ڈالر ملیں گے جس میں سے 88ملین ڈالر نیشنل ٹی بی کنٹرول پروگرام ،45ملین ڈالرانڈس ہسپتال جبکہ باقی مرسی کیور کو ملیں گے۔

اس موقع پر اشوک کمار نے کہا کہ گلوبل فنڈ برائے راست صوبے میں نہیں جاتے پہلے وفاق میں آتے ہیں آپ غلط بیانی کررہے ہیں اس وقت ملک میںموبائل یونٹ کتنے ہیں۔جس پر ڈپٹی منیجر نیشنل ٹی بی کنٹرول پروگرام نے بتایا کہ اس وقت ہمارے زیر انتظام کوئی موبائل یونٹ نہیں ہے۔ 16موبائل یونٹ مرسی کیور کے پاس ہیں جبکہ انڈس ہسپتال کے پاس پنجاب میں9 موبائل یونٹ اور سندھ میں 70موبائل یونٹ ہیں۔

جس پر سینیٹر اشوک کمار نے کہا کہ کیا بلوچستان اور خیبرپختونخواہ میں ٹی بی نہیں ہے۔ آپ کا تعلق خاران سے ہے۔ کیا خاران میں ٹی بی نہیں آپ کو خیال نہیں آیا کہ ایک موبائل یونٹ ادھر بھی لے جائیں اشوک کمار نے کہا کہ انڈس ہسپتال کو ادویات بھی یہ دیتے ہیں اور لیبارٹری کاسامان بھی یہ دیتے ہیںبلوچستان میں کچھ نہیں ہورہا ہے نہ وہاں ڈاکٹر نہ دوائی ہے یہ پیسے کھارہے ہیں اور کچھ نہیں کررہے بندے مررہے ہیں اس موقع پر متعلقہ حکام کی جانب سے بریفنگ میں بتایا گیا کہ بلوچستان میں 10ہزار 462ٹی بی کے مریض ہیں جس پر اشوک کمار نے کہا کہ 10ہزار ٹی بی کے مریض تو صرف لسبیلہ کے اندر ہیں وہاں ڈاکٹر اور سٹاف بھی نہیں تو ٹی بی کے مرض کی تشخیص کہا ںسے ہو۔

انڈس ہسپتال والوں کوکہیں موبائل یونٹ بلوچستان میں بھیجیںبلوچستان کے ہرضلح میں ایک موبائل یونٹ بھیجی جائے۔اس موقع پر متعلقہ حکام کی جانب سے بریفنگ میں بتایا گیا کہ پاکستان میںمدافعتی ٹی بی کے مریضوں کے لیے 34مراکز ہیں جہاں مفت ٹی بی تشخیص کی جاتی ہے اور علاج کیا جاتاہے۔جب کہ4ہزار سے زائد مدافعتی ٹی بی کے مریضوں کو علاج کے علاوہ بھی راشن کے لیے پیسے دیے جاتے ہیں۔

اس موقع پرکنوینئیرسینیٹر غوث محمد خان نے کہا کہ ابھی بھی کئی لوگ اپنے آپ کو ٹی بی کا مریض ظاہر کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں۔اس بارے میں کوئی آگاہی مہم شروع کی جائے۔اشوک کمار نے کہا کہ ٹی بی کا پانامہ سے بھی برا حال ہے۔ جب کمیٹی کو اختیار دیا گیا کہ پرائیویٹ میڈیکل کالج کاآڈٹ کریں تو پی ایم ڈی سی نے ہمیں بلایا کہ آپ کو آڈٹ رپورٹ پر بریف کرتے ہیں لیکن ہمیں کچھ نہیں بتایا۔

پی ایم ڈی سی پرائیویٹ میڈیل کالج کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔ادویات کے مسئلے پر ڈریپ مسئلے کھڑے کرتا ہے۔ڈریپ ڈیزل کے سوا چلتی نہیں ہے۔منیجر نیشنل ٹی بی کنٹرول پروگرام نے کہا کہ پاکستا ن میں ٹی بی ادویات کی ڈبلیو ایچ او کے معیار کی کوئی کمپنی موجود نہیں۔ادویات قیمتیں زیادہ ہونے کی وجہ سے پاکستان ڈبلیو ایچ او کی بڈنگ میں بھی حصہ نہیں لے سکتا اشوک کمارنے جوائنٹ سیکرٹری نیشنل ہیلتھ سروسز کو کہا کہ آپ بھی ڈرتے ہیںکہ ابھی تو اسلام کی ٹھنڈی ہوا میں بیٹھے ہیں کہیں آپ کو لورالائی میں نہ بھیج دیں جیسامیڈیم بولے گی ویسا سیکرٹری کرے گا