ڈاؤ میڈیکل کالج سول اسپتال ڈاکٹر رتھ فاؤ آنکالوجی ڈیپارٹمنٹ کے زیر اہتمام بریسٹ کینسر آگہی سیمینار

جمعہ 20 اکتوبر 2017 19:17

کراچی ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 20 اکتوبر2017ء) ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد سعید قریشی نے پاکستان میں بریسٹ کینسر کی شرح میں تیزی سے اضافے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ڈبلیو ایچ او کے اقدامات کے نتیجے میں افریقہ میں کینسر کی بڑھتی شرح پر قابوپایا گیا، اسی انداز میں پاکستان میں بھی پولیومہم کی طرز پرہنگامی بنیادوں پرکام کرنے کی ضرورت ہے۔

جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق یہ بات انہوں نے ڈاؤ میڈیکل کالج سول اسپتال ڈاکٹر رتھ فاؤ آنکالوجی ڈیپارٹمنٹ کے زیر اہتمام بریسٹ کینسر آگہی سیمینار سے بحیثیت مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کہی۔ اس موقع پر ملک کے مختلف اسپتالوں میں کینسر کے علاج کے ماہرین نے مقالے پیش کئے۔

(جاری ہے)

پروفیسر ڈاکٹر محمد سعید قریشی نے آگہی سیمینار کے انعقاد پر منتظمین کومبارکباد دی اور کہا کہ ایسے سیمینارز کے ذریعے شعوروآگہی کا عمل جاری رہنا چاہئے۔

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے ڈاؤ میڈیکل کالج کے پرنسپل پروفیسر کرتار دوانی نے کہاکہ بریسٹ کینسر خواتین میں تیزی سے پھیلنے والا کینسر ہے، اس کی شرح 25 فیصد ہے، امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں آٹھ میں سے ایک عورت کو یہی مرض لاحق ہوتا ہے جبکہ ترقی پذیر ملکوں کی خواتین میں یہ مردوں سے سو گنا زیادہ تیزی سے ہوتا ہے۔ پروفیسر صبا سہیل نے کہاکہ سول اسپتال میں ہونے والے میمو گرافک ٹیسٹ کے مطابق پاکستان کی 45 سے 49 سال کی خواتین میں یہ کینسر تیزی سے پھیل رہا ہے، کراچی میں چالیس ہزار خواتین سالانہ اس مرض میں مبتلا ہوتی ہیں۔

انہوں نے کہاکہ چالیس سال کی عمر کو پہنچنے والی خواتین کیلیے لازم ہے کہ وہ بریسٹ کینسر کی اسکریننگ کرائیں، بریسٹ کینسر کی فیملی ہسٹری رکھنے والی خواتین کو اپنی اسکریننگ ابتدائی عمر میں ہی کرالینی چاہئے۔ پروفیسر صغری پروین نے کہاکہ کم عمری میں کسی بھی وجہ سے اسقاط حمل اور پختہ عمر میں پہلی ڈیلیوری سے بھی بریسٹ کینسر لاحق ہونے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔

لیاقت نیشنل اسپتال کالج کی پروفیسر روفینہ سومرو نے کہاکہ پاکستان میں اکثر کیسز میں ابتدائی مرحلے پر بریسٹ کینسر کی تشخیص نہیں ہو پاتی اکثر کیسز اس وقت رپورٹ ہوتے ہیں جب مریض کی جان بچانا ہی مشکل ہو جاتا ہے، پاکستان میں ثقافتی مذہبی اور سماجی پابندیاں بھی اس مرض کی ابتدائی مرحلے تشخیص میں رکاوٹ ہیں۔ انہوں نے کہاکہ یہ بریسٹ کینسر مردوں میں بھی ہوتا ہے مگر اس کے وراثت میں منتقل ہونے کے پانچ سے دس فیصد امکانات ہوتے ہیں، پاکستان میں غلط تصور کی وجہ سے لوگ ان بچیوں سے شادی نہیں کرتے جن کی ماں کو یہ مرض ہو جو ایک اور سماجی بحران کا باعث بنتا ہے۔

آغا خان یونیورسٹی میڈیکل کالج کے پروفیسر عدنان اے جبار نے کہاکہ لوگوں کے غلط تصورات بھی مرض کے پھیلنے کی وجہ ہیں، بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ کینسر بائیوپسی کرانے سے پھیل جاتا ہے اگر زیرو اسٹیج پر اس کی تشخیص ہوجائے تو 100 فیصد کنٹرول کیا جا سکتا ہے، پہلے اسٹیج پر 95 فیصد زندگی بچنے کے امکانات ہوتے ہیں جبکہ دوسرے اسٹیج پر 93، تیسرے اسٹیج پر 72 فیصد اور چوتھے اسٹیج پر 22 فیصد امکانات ہوتے ہیں۔

لاہور سے آئی پروفیسر جویریہ محمود نے کہاکہ موٹاپا بریسٹ کینسر کی بڑی وجہ ہے، سادہ غذا اور باقاعدہ ورزش سے اس کے خطرات کو کم کیا جا سکتا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر نور محمد سومرو نے کہاکہ اکتوبر کے مہینے کو بریسٹ کینسر کے مہینے کے طور پر منایا جا رہا ہے، یہ سیمینار اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ سیمینار سے پروفیسر ساجدہ قریشی نے بھی اس موقع پر خطاب کیا۔

متعلقہ عنوان :