فلیگ شپ انوسٹمنٹ اور15 آف شور کمپنیوں کے ریفرنسز میں بھی نواز شریف پر فرد جرم عائد

جمعہ 20 اکتوبر 2017 13:07

فلیگ شپ انوسٹمنٹ اور15 آف شور کمپنیوں کے ریفرنسز میں بھی نواز شریف پر ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 20 اکتوبر2017ء) احتساب عدالت نے تیسرے نیب ریفرنس (فلیگ شپ انوسٹمنٹ اور15 آف شور کمپنیوں )میں بھی سابق وزیراعظم نواز شریف پرکرپشن الزامات میں فرد جرم عائد کردی‘ سابق وزیراعظم کے نمائندے ظافر خان عدالت میں پیش ہوئے اور انہوں نے صحت جرم سے انکار کردیا‘ چارج شیٹ کے مطابق سابق وزیراعظم نواز شریف اپنے اثاثوں کی قانونی حیثیت ثابت کرنے میں ناکام رہے‘ ایف زیڈ ای کمپنی کے شیئر ہولڈر نہیں چیئرمین رہے جبکہ آمدن سے زائد جائیدادیں اور پندرہ آف شور کمپنیاں بنائیں‘ حسین اور حسن نواز کو اس ریفرنس میں بھی مفرور قرار دیدیا گیا‘ عدالت نے کیس کی سماعت 26اکتوبر تک ملتوی کرتے ہوئے استغاثہ کے گواہ جہانگیر احمد کو طلب کرلیا‘ سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کے بچوں کے خلاف نیب ریفرنسز میں کیس کا باضابطہ ٹرائل 26اکتوبر سے شروع ہوجائے گا۔

(جاری ہے)

جمعہ کو سابق وزیراعظم نواز شریف حسن نواز اور حسین نواز کے خلاف فلیگ شپ انوسٹمنٹ اور آف شور کمپنیوں سے متعلق ریفرنس کی سماعت اسلام آباد کی احتساب عدالت میں ہوئی۔ سابق وزیراعظم کی طرف سے ان کے نمائندے ظافر خان عدالت میں پیش ہوئے جبکہ کیس کے مرکزی وکیل خواجہ حارث اور ان کے معاون امجد پرویز ایڈووکیٹ عدالت میں موجود نہیں تھے ‘ وکلاء کے پینل کے ایک نمائندے نے سابق وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے عدالت میں دلائل دیئے اور تیسرے ریفرنس میں فرد جرم عائد کرنے کی کارروائی روکنے کی استدعا کی۔

نیب کے پراسیکیوٹر نے فرد جرم عائد کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ملزمان کے وکلاء عدالت کا وقت ضائع کررہے ہیں اور کیس کے ٹرائل کو رکوانا چاہتے ہیں۔ فاضل جج محمد بشیر نے فلیگ شپ انوسٹمنٹ اور آف شور کمپنیوں سے متعلق بنائے گئے نیب ریفرنس میں فرد جرم کے نکات پڑھ کر سنائے۔ سابق وزیراعظم کے نمائندے ظافر خان نے عائد کئے گئے الزامات اور صحت جرم سے انکار کیا۔

عدالت نے فلیگ شپ انوسٹمنٹ اور العزیزیہ ریفرنسز کی سماعت 26اکتوبر تک ملتوی کرتے ہوئے استغاثہ کے ایک ایک گواہ کو بیان ریکارڈ کرنے کے لئے طلب کرلیا جبکہ فلیگ شپ انوسٹمنٹ ریفرنس میں بھی حسن نواز اور حسین نواز کو مفرور قرار دیدیا گیا ہے۔ فرد جرم کے نقاط کے مطابق آمدن سے زائد اثاثے بنائے گئے‘ نواز شریف نے حسن اور حسین نواز کے نام پر جائیدادیں بنائیں‘ متعدد مواقع دیئے گئے لیکن نواز شریف نے اپنے اثاثے ظاہر نہیں کئے‘ اثاثوں کی قانونی حیثیت ثابت نہیں کی گئی‘ نواز شریف 2007 سے 2014 تک ایف زیڈ ای کے چیئرمین رہے اور تنخواہ وصول کی‘ حسن نواز نواز شریف کے اثاثوں کو دیکھتے تھے‘ 1996 سے 2001ء تک حسن نواز کا کوئی ذریعہ آمدن نہیں تھا 1989 اور 1990 میں حسن نواز اور حسین نواز والد کی زیر کفالت تھے نواز شریف وزیراعلیٰ اور وزیراعظم کے عہدوں پر فائز رہے۔

جے آئی ٹی کو دیئے گئے بیان اور سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے ریکارڈ میں بھی تضاد ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف ‘ مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر پر فرد جرم عائد کی گئی تھی جبکہ العزیزیہ سٹیل ملز ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف پر فرد جرم عائد کی گئی اور فلیگ شپ انوسٹمنٹ ریفرنس میں عدالتی وقت ختم ہونے کے باعث کارروائی ایک روز کے لئے موخر کی گئی اور اب باضابطہ طور پر اس ریفرنس میں بھی سابق وزیراعظم نواز شریف پر فرد جرم عائد ہوگئی ہے اور تینوں نیب ریفرنسز کی سماعت 26اکتوبر کو ہوگی۔ استغاثہ کے گواہوں کے بیانات سے کیس کا باضابطہ ٹرائل شرو ع ہوجائے گا۔