لاڑکانہ، موہن دڑو کے نواحی گائوں میں گذشتہ سات سالوں سے موذی مرض زرد یرقان نے تباہی مچادی

تمام چھوٹے بڑے خواتین، بچے، مرد اور بزرگ زرد یرقان میں مبتلا ہوگئے، انتظامیہ نے علاج کی سہولت فراہم کرنے کے بجائے نظر انداز کردیا

جمعرات 19 اکتوبر 2017 22:41

لاڑکانہ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 19 اکتوبر2017ء) موہن جو دڑو کے قریب تحصیل ڈوکری کے نواحی گاؤں سونہارو گاڈھی میں گذشتہ سات سالوں سے موذی مرض زرد یرقان (ہیپاٹائیٹس سی) نے تباہی مچادی، تمام چھوٹے بڑے خواتین، بچے، مرد اور بزرگ زرد یرقان میں مبتلا ہوگئے، لاڑکانہ انتظامیہ نے اطلاع کے باوجود تدارک و علاج کی سہولت فراہم کرنے کے بجائے نظر انداز کردیا ہے۔

گاؤں سونہارو گاڈھی کے مکینوں نے خصوصی سروے میں بتایا کہ گاؤں میں 50 سے زائد مرد خواتین، بزرگ اور معصوم بچے زیر زمیں مضر صحت پانی کے استمال کے باعث زرد یرقان جیسے موذی مرض میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ روزنامہ ’’امت‘‘سے بات کرتے ہوئے دیہاتی سکھیو خان، طفیل احمد، ممتاز گاڈھی اور لیلا خاتون نے بتایا کہ 2010 سے زیر زمین پانی مضر صحت ہوگیا اور گاؤں میں کسی قسم کی واٹر سپلائی اسکیم یا فلٹر پلانٹ نہ ہونے کے باعث دیہی عوام زیر زمین پانی بورنگ نلکو کے ذریعے نکالنے کے بعد استعمال کرنے پر مجبور ہیں جس سے پورا گاؤں ہی زرد یرقان کی لپیٹ میں آگیا ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے محکمہ صحت اور لاڑکانہ انتظامیہ پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ گاؤں میں زرد یرقان جیسے سنگین مسئلے سے آگاہ کرنے کے باوجود محکمہ صحت نے کسی قسم کی کوئی طبی کیمپ قائم نہیں کی اور نہ ہی بروقت علاج فراہم کیا گیا جسکی وجہ سے زرد یرقاں ایک وبائی جان لیوا مرض کے طور پر پھیلتا جارہا ہے۔ متاثرین نے مزید بتایا کہ اس موذی مرض سے ہمارے دس سے زائد افراد جانبحق ہوچکے ہیں اس کے باوجود ضلعی انتظامیہ اور ضلعی محکمہ صحت کے عملداروں کے نوٹس نہ لینے سے گاؤں کے لوگ بے یارو مددگار علاج کے منتظر ہیں۔

انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ جلد محکمہ صحت ایک ٹیم تشکیل دیکر گاؤں روانہ کی جائے جو زیر زمیں مضر صحت پانی کو چیک کرکے بہتر پانی کی سپلائی کا بندوبست کرکے مزید جانی نقصان کا تدارک کرسکے۔ انہوں نے کہا کہ دس سے زائد جانیں ضائع ہوچکی ہیں اور 50 سے زائد افراد اس موذی مرض میں مبتلا ہیں جن میں 12 سالا ایاز علی، 20 سالا مزنو گاڈھی، 12 سالا وسیم علی، 5 سالا امیر علی، 40 سالا محمد صدیق، اختیار اوڈ، صدام حسین کلھوڑو، شکیل احمد، بینظیر خاتون، یونس، بگن، اسلم، حمید، ملنگ، الاہی بخش، علی شیر، صدورو، شیر خان، رازق علی، بشیر خان، ممتاز علی، فیاض، محبوب علی، لیلا خاتون، امیراں خاتون، طفیل احمد، حبیب اللہ، منٹھار علی سمیت بچوں کی بڑی تعداد شامل ہے جبکہ موذی مرض زرد یرقان میں مرنے والے منٹھار علی، کریم بخش، طفیل احمد، وارث ڈنو، محبوب علی اور سبھائی خاتون سمیت دیگر شامل ہیں۔

یرقان اور زرد یرقان میں مبتلا افراد کے متعلق یونین کونسل کارانی کے چئرمین محمد جمن بگھیو نے بتایا کہ 2010 سے زیر زمین پانی مضر صحت ہونے سے علاقے میں زرد یرقان وبائی صورت اختیار کرچکا ہے۔ اس سلسلے میں محکمہ صحت کے صوبائی وزیر سکندر میندرو اور ڈپٹی کمشنر لاڑکانہ کاشف ٹیپو کو کئی مرتبہ آگاہ کیا گیا ہے تاھم متاثرہ علاقوں کو مسلسل نظر انداز کیا جارہا ہے جسکی باعث زرد یرقان دیگر علاقوں میں بھی پھیلتا جارہا ہے۔ انہوں نے حکومت سندھ، محکمہ صحت سمیت اعلی حکام سے اپیل کی ہے کہ متاثرہ علاقوں پر فوری توجہ دیکر مزید قیمتی جانوں کو بچایا جائے۔

متعلقہ عنوان :