پاکستان میں سونا، چاندی، تانبا و دیگر دھاتوں کے وسیع ذخائر موجود ہیں

سیکرٹری مائنز اینڈ منرلز ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کا جامعہ اردو کے سیمینار سے خطاب

جمعرات 19 اکتوبر 2017 17:10

کراچی ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 19 اکتوبر2017ء) وفاقی اردو یونیورسٹی کے شعبہ ارضیات (Geology) کے تحت پاکستان کونسل فار سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے تعاون سے ’’کان کنی اور ایندھن کی صنعتیں‘‘ (Mining and Fuel Industries) کے موضوع پر شیخ زاید اسلامک سینٹر آڈیٹوریم، جامعہ کراچی میں تین روزہ عالمی کانفرنس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سیکریٹری مائنز اینڈ منرلز ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ سندھ شمس سومرو نے کہا کہ پاکستان میں سونا، چاندی، تانبا و دیگر دھاتوں کے وسیع ذخائر موجود ہیں، اگر کان کنی کے شعبے میں حکومت اور دیگر ادارے توجہ دیں تو اس سے حاصل شدہ خزانے سے ملک کی معیشت کو مستحکم کیا جا سکتا ہے اور مقامی لوگوں کو ملازمتوں کے کثیر مواقع دستیاب ہوں گے، اس کانفرنس سے ملکی و بین الاقوامی سطح پر اس شعبے میں کی جانے والی تحقیق کا تبادلہ ہو گا جس سے مفید نتائج مرتب ہوں گے۔

(جاری ہے)

تقریب سے چیف آرگنائزر پروفیسر ڈاکٹر وقار حسین ،چیئرپرسن شعبہ ارضیات سیما ناز صدیقی، سیکریٹری سہیل انجم، چیئرمین پاکستان کونسل فار سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ڈاکٹر انوار الحسن جیلانی، چیف انسپکٹر مائنز سندھ انجینئر سید ارشاد اے جیلانی اور ترکی کی یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر سیمسینسوگٹ(Cem Sensogut) نے بھی خطاب کیا۔ کانفرنس کے انعقاد میں سوسائٹی آف اکنامک جیالوجسٹ اینڈ منرل ٹیکنالوجسٹ، شعبہ کان کنی اور معدنیاتی ترقی ، سندھ اور ترکی کی ڈملوپینار یونیورسٹی(Dumlupinar University)کا بھی تعاون حاصل ہے ۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر وقار حسین نے کہا کہ سوسائٹی آف اکنامک جیالوجسٹ اینڈ منرل ٹیکنالوجسٹ شعبہ ارضیات میں فعال کردار ادا کررہی ہے۔ ملک کے ہر بڑے شہر میں تحقیقی کانفرنسیں منعقد کی جارہی ہیں اس کے علاوہ بیرون ممالک کی جامعات اور اداروں سے بھی اس ضمن میں تحقیق کا تبادلہ ہورہا ہے۔سیما ناز صدیقی نے کہا کہ پاکستان میں قیمتی دھاتوں کے وسیع ذخائر موجود ہیں لیکن حکومت کی عدم دلچسپی کے باعث ان سے خاطر خواہ فوائد حاصل نہیںکئے جارہے ہیں۔

دنیا گلوبلائزیشن کی طرف جارہی ہے ہماری اس کانفرنس کا مقصد بھی اس بات کا تجربہ کرنا ہے کہ ہم دوسرے ممالک کی تحقیق سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے ملک میں ارضیات کے شعبے میں کس طرح بہتری لاسکتے ہیں۔ سہیل انجم نے کہا کہ وہ ملک اور بیرون ملک سے آئے ہوئے محققین اور تمام اداروں کے شکر گذار ہیں جنہوں نے جامعہ اردو کے شعبہ ارضیات کے تحت پہلی عالمی کانفرنس کے انعقاد میں بھرپور تعاون کیا۔

ڈاکٹر انوار الحسن جیلانی نے کہا کہ اس شعبے میں قومی سطح پر تحقیق کی ضرورت ہے اس میں ملازمتوں کے وسیع مواقع موجو دہیں۔پروفیسر ڈاکٹر سیم سینسوگٹنے کہا کہ پاکستان معدنیات اور دھاتوں سے مالا مال ملک ہے۔ ان ذخائر سے فائدہ اٹھا کر استعمال میں لایا جاسکتا ہے جس سے نہ صرف معاشی مضبوطی ہوگی بلکہ پاکستان کاشمار بھی جلد ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہوجائیگا۔

کانفرنس کے دوسرے سیشن میں چین، ترکی، ملائیشیاء، سری لنکا، بنگلہ دیش اور نائیجیریا کے علاوہ ملک بھر کے ماہرین ارضیات نے تحقیقی مقالہ جات پیش کئے اور اس شعبے میں کام کرنے کے طریقوں، حاصل ہونے والے فوائد اور عملی صورتحال پر سیر حاصل بحث میں حصہ لیا۔ کانفرنس دوسرے روز 20 اکتوبر کو بھی صبح سے شام تک جاری رہے گی جبکہ 21 اکتوبر کو فیلڈ ٹرپ کرایا جائے گا۔

متعلقہ عنوان :