ہر وقت عدلیہ کو تنقید کا نشانہ بنا نے والے ہوش کے ناخن لیں،جسٹس ثاقب نثار

جمعرات 19 اکتوبر 2017 15:17

ہر وقت عدلیہ کو تنقید کا نشانہ بنا نے والے ہوش کے ناخن لیں،جسٹس ثاقب ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 19 اکتوبر2017ء) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ آرٹیکل 62ون ایف کے ایک ایک لفظ کا جائزہ لینا ہو گا، آئے روز نئی چیزیں عدالت کے سامنے آرہی ہیں، وکلاء 62ون ایف کے مطلب پر معاونت کریں، جو لوگ ہر وقت عدلیہ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں وہ ہوش کے ناخن لیں، ہم نے ہی اداروں کو مضبوط کرنا ہے، انتہائی احتیاط اور محتاط انداز سے کارروائی کو چلا رہے ہیں، دیکھنا ہو گا کہ ارکان اسمبلی کی نا اہلی کیلئے بے ایمانی کی نوعیت کیا ہو گی، بے ایمانی کی ایک صورت کرپشن بھی ہے، آرٹیکل 62ون ایف کا جائزہ کیس ٹو کیس لیا جا سکتا ہے، جہانگیر ترین کے وکیل سکندر بشیر نے کہا کہ غیر آئینی طور پر نا اہلی نہیں ہو سکتی، آرٹیکل 62ان کا راستہ روکتا ہے جو صادق اور امین نہ ہوں۔

(جاری ہے)

جمعرات کو جہانگیر ترین نا اہلی کیس کی سماعت سپریم کورٹ میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے کی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ایسی آبزرویشن نہیں دی جو گزشتہ روز ہائی لائٹ کی گئی، ہماری آبزرویشن کا مطلب فیصلہ نہیں ہوتا، عدالتی آبزرویشن چیزوں کو سمجھنے کیلئے ہوتی ہے، انتہائی احتیاط اور محتاط انداز سے کارروائی کو چلا رہے ہیں۔

اس پر وکیل سکندر بشیر نے کہا کہ عدالتی سوالات میرے لئے بہت معاون ثابت ہوتے ہیں، جب سے کیس شروع ہوا ہے اخبار پڑھنا بند کر دیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم سوال تب پوچھتے ہیں جب کچھ سمجھ نہ آئے۔ وکیل سکندر بشیر نے کہا کہ آرٹیکل 62ان کا راستہ روکتا ہے جو صادق اور امین نہ ہوں، ایس ای سی پی کا سیکشن 15اے اور بی آئین سے متصادم ہے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ قانون کے سیکشن کو چیلنج کرنے پر اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کرنا پڑے گا۔

وکیل سکندر بشیر نے کہا کہ اٹارنی جنرل کو معاونت کیلئے پہلے ہی نوٹس جاری ہو چکا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ قانون کے سیکشنز پر الگ سے ایک نوٹس جاری کرنا پڑے گا۔ وکیل سکندر بشیر نے کہا کہ جہانگیر ترین نے ایس ای سی پی کے کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں کی، غیر آئینی طور پر نا اہلی نہیں ہو سکتی۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ اگر قانون غیر آئینی نہ ہوا تو پھر آپ کا موقف کیا ہو گا وکیل نے جواب دیا کہ میرا موقف ہو گا کہ جہانگیر ترین کے کاغذات نامزدگی چیلنج نہیں کئے گئے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ بے ایمانی کی ایک صورت کرپشن بھی ہے، آرٹیکل 62ون ایف کے ایک ایک لفظ کا جائزہ لینا ہو گا، یقین ہے کہ وکلاء آرٹیکل 62ون ایف پر معاونت کریں گے۔ وکیل سکندر بشیر نے کہا کہ آرٹیکل 62ون ایف کا اطلاق صرف کرپشن پر نہیں ہوتا، عدالت نے جعلی ڈگری پر آرٹیکل 62ون ایف پر نا اہل کیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آئے روز نئی چیزیں عدالت کے سامنے آ رہی ہیں، ہم کوئی سخت قواعد و ضوابط نہیں بنا سکتے، عدالت میں بیٹھے چند دوستوں کے پاس میرا موبائل نمبر ہے، دوست مجھے مقدمات سے متعلق چیزیں واٹس ایپ کرتے ہیں، ایسی چیزیں بھیجتے ہیں جو ان کے موقف کی تائید کرتی ہیں، آرٹیکل 62ون ایف کا جائزہ کیس ٹو کیس لیا جا سکتا ہے، مجھے دیکھنا ہے کہ ملک اور ادارے کے مفاد میں کیا ہے، تنقید کرنے والے یہ بھی دیکھیں کہ یہ ان کا بھی ادارہ ہے، میں جذباتی ہو کر کام نہیں کرتا، عدالت نے ایس ای سی پی قانون کے معاملے پر اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کردیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ دیکھنا ہو گا کہ ارکان اسمبلی کی نا اہلی کیلئے بے ایمانی کی نوعیت کیا ہو گی، بچے سے یہ کہلوانا کہ ابو گھر پر نہیں بے ایمانی ہے، کیس کی مزید سماعت آئندہ پیر تک ملتوی کر دی گئی۔