ہمارے خلاف آئی جے آئی بنائی گئی تو کبھی آئی ایس آئی کے ذریعے ہماری حکومت ختم کرائی گئی،بلاول بھٹوزرداری

جب بھٹو پھانسی سے نہیں ڈرا تو بے نظیر موت سے کیسے گھبراتی ن لیگ اور پی ٹی آئی اپنے مفادات کے لیے وطن کو بھی قربان کرنے کے لیے تیار ہیں، حیدرآباد میں جلسہ سے خطاب

بدھ 18 اکتوبر 2017 23:33

ہمارے خلاف آئی جے آئی بنائی گئی تو کبھی آئی ایس آئی کے ذریعے ہماری ..
حیدرآباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 18 اکتوبر2017ء) پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ تاریخ گواہ ہے کہ ہر دور میں کربلا برپا ہوتی ہے، ہمارے خلاف آئی جے آئی بنائی گئی تو کبھی آئی ایس آئی کے ذریعے ہماری حکومت ختم کرائی گئی، پاکستان پیپلز پارٹی کو جن آزمائشوں سے گزرنا پڑا ہے اس کی مثال نہیں ملتی،جب بھٹو پھانسی سے نہیں ڈرا تو بے نظیر موت سے کیسے گھبراتی ، ن لیگ اور پی ٹی آئی کو عوام کی کوئی فکر نہیں، ان کے پاس عوام کو دینے کے لیے کچھ نہیں، اناڑی شخص کرکٹ گرائونڈ سے باہر نہیں نکلا، سیاست گالم گلوچ کا نام نہیں، میاں صاحب پروپیگنڈے کے ماہر ہیں ، اپنے خاندان کو بچانے کی خاطر ملک کو قربان کرنے کے لیے تیار ہیں، بھٹو پسے ہوئے طبقات کے قائد تھے۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے بدھ کوحیدر آباد میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ امام حسین نے قربانی دے کر قیامت تک کے لیے ایسی مثال قائم کردی جو ہمارے لیے مشعل راہ ہے اور اس فلسفے کو پاکستان پیپلز پارٹی سے زیادہ کون جانتا ہے جو اپنے قیام سے آج تک اتنی آزمائشوں سے گزری ہے جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے آمریت کے خلاف جدوجہد کا آغاز کیا، بہت ظلم سہے لیکن پیچھے نہیں ہٹے، جنرل ضیا کی خون خوار آمریت کے آگے پی پی کے جیالے ہی ڈٹے تھے، جیالوں نے خود سوزی کرکے احتجاج کی نئی روایت قائم کی، ان قربانیوں میں سب سے بڑا نام ذوالفقار علی بھٹو کا تھا جنہوں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔انہوں نے کہا کہ بھٹو کے بعد بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو نے پارٹی سنبھالی اور ایک بار پھر جمہوری حکومت قائم کی لیکن سازشیں ختم نہ ہوئیں، کبھی آئی جے آئی بنائی گئی تو کبھی آئی ایس آئی کے ذریعے ہماری حکومت ختم کرائی گئی ہم پر جھوٹے کیسز بنائے گئے، ہمیں جلاوطن کیا گیا اور عوام سے دور کیا گیا لیکن ہم نے عوام کا ساتھ نہیں چھوڑا تو عوام بھی ہمارے ساتھ رہے، جب بھٹو پھانسی سے نہیں ڈرا تو اس کی بیٹی بے نظیر موت سے کیسے گھبراتی ۔

بلاول نے کہا کہ برسوں کی جلاوطنی کے بعد بے نظیر جب 10 سال قبل 18 اکتوبر کو وطن واپسی آرہی تھی تو کارساز پر ان پر حملہ کیا گیا، کارساز کی سڑکیں خون سے سرخ ہوگئیں، کراچی سے جنازے اٹھے، اتنے بڑے حملے کے باوجود ڈکٹیٹر مشرف بے نظیر کا حوصلہ نہ توڑ سکے اور بے نظیر اسپتال سمیت شہدا کے گھروں پر بھی تعزیت کے لیے گئیں، وہ محفوظ رہیں مگر قاتلوں نے ان کا پیچھا نہ چھوڑا اور راولپنڈی میں شیطانی قوتوں نے حملہ کرکے انہیں شہید کردیا۔

انہوں نے کہاکہ آمر ضیا الحق نہیں رہا، مشرف بھاگا ہوا ہے لیکن بھٹو شہید اور بے نظیر آج بھی زندہ ہیں، بے نظیر کے بعد آصف زرداری نے پارٹی کو زندہ رکھا، ہمارے خلاف سازشیں جاری ہیں مخالفین پہلے کی طرح پھر ناکام، شرمندہ اور مایوس ہوں گے، ہم ایسا معاشرہ قائم کرنا چاہتے ہیں جو انصاف پر مبنی ہو مگر جو کچھ ہورہا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔انہوں نے کہا کہ ایک طرف ن لیگ اور دوسری طرف پی ٹی آئی ہے یہ دونوں اپنے ذاتی مفاد کے لیے سیاست کرتے ہیں انہیں عوام کی کوئی پروا نہیں، ن لیگ ایک خاندان کو بچانے اور نااہل شخص کو پارٹی صدر بنانے کے لیے قانون سازی کرتی ہے، دونوں جماعتیں اپنے مفادات کے لیے وطن قربان کرنے کو تیار ہیں۔

چیئرمین پی پی نے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اسی طرح ایک اور ٹولہ ہے جس کی قیادت ایک ایسے اناپرست اور اناڑی شخص کے پاس ہے جو کرکٹ گرانڈ سے باہر ہی نہیں نکلا، سیاست گالم گلوچ اور جھوٹے الزامات کا نام نہیں، میں یہ سب کچھ نہیں کرتا، سیاست میرے لیے عبادت ہے جو میرے بڑوں نے کی اور میں بھی کررہا ہوں۔بلاول نے کہا کہ یہ لوگ کرپشن کو صرف نعرے کے طور پر استعمال کرتے ہیں، یہ نہیں جانتے کہ کرپشن ایک بوسیدہ نظام کا حصہ ہے، جب تک لوٹ مار کا نظام قائم ہے تب تک اس ناسور کا خاتمہ ممکن نہیں، چہرے نہیں نظام بدلنا ہوگا، ہماری جدوجہد اس نظام کے خلاف ہے۔

بلاول نے کہا کہ میاں صاحب چار بار سندھ آئے اور ہر بار اربوں روپے دینے کا اعلان کیا اور ان کا آج تک کچھ پتا نہیں، یہ صرف پی پی کی حکومت ہے جو سندھ میں کام کرتی ہے سندھ میں جو کچھ بھی ترقی ہوئی ہمارے دور میں ہوئی، میاں صاحب سندھ میں آکر صاف جھوٹ بولتے ہیں کہ سندھ کھنڈر بن گیا، یہ کھنڈر کبھی نہیں بن سکتا جسے شاہ لطیف اور قلندر کی دعا ہو وہ دھرتی کبھی کھنڈر نہیں بن سکتی۔

انہوں نے کہا کہ میں دعوی نہیں کرتا کہ سب ٹھیک ہوگیا یہاں مزید کام کرنے کی ضرورت ہے، پورے سندھ میں اربوں روپے کی لاگت سے منصوبے مکمل کیے گئے اور مزید انقلابی کام جاری ہیں مگر سندھ کو اس کے حصے کا پانی بھی نہیں ملتا، یہ کیسا انصاف ہے کہ جب پانی زیادہ ہو تو ڈیم کے دروازے کھول کر سندھ کو ڈبو دیا جائے اور جب پانی کم ہو تو سندھ کو پیاسا مار دیا جائے، پانی کی اس غیر منصفانہ تقسیم سے سندھ متاثر ہے۔

متعلقہ عنوان :