سانحہ کارساز کی دسویں برسی، ہماری کوئی شنوائی نہیں ہوئی، پی پی کا رکن رانا دلمیر

بدھ 18 اکتوبر 2017 22:00

ملتان ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 18 اکتوبر2017ء)سانحہ کارساز کی دسویں برسی کے موقع پر پاکستان پیپلزپارٹی کے کارکنوں نے جہاں مختلف ریلیاں نکالیں اور شہداء کی یاد میں شمعیں روشن کیں۔وہیں اس سانحہ کاشکار ہونے والے کارکنوں کے زخم بھی تازہ ہوگئے۔18اکتوبر2007ء کو سانحہ کارساز میں جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے پانچ کارکن دہشت گردوں کانشانہ بنے۔

ان میں سے تین کارکن موقع پر شہید ہوگئے جبکہ دو کارکن شدید زخمی ہوئے۔شہداء کاتعلق علی پور سے تھا ۔سانحہ کے اگلے روز ان کی میتیں ان کے آبائی علاقے میں روانہ کردی گئیں۔اس موقع پر جو دو کارکن شدید زخمی ہوئے ان کا تعلق ملتان سے تھا ۔ان میں پاکستان پیپلزپارٹی ضلع ملتان کے جنرل سیکرٹری رائو ساجد اور قادرپورراں سے تعلق رکھنے والے کارکن رانا دلمیر شامل ہیں۔

(جاری ہے)

رائو ساجد اور رانا دلمیر نے اے پی پی سے بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ ہم وہ دن کبھی فراموش نہیں کرسکتے ۔ہمیں تو ایک طرح سے نئی زندگی ملی ورنہ جس بڑے پیمانے پر وہاں کارکن شہیدہوئے ان میں ہمارا بچ جانا معجزے سے کم نہیں۔رانا دلمیر نے بتایا کہ میری تو موت کی خبر بھی ٹی وی چینلوں پر نشرہوگئی تھی۔ زخمی ہونے کے بعد میرا شناختی کازڈ جائے وقوعہ پر ہی گرگیاتھا جسے چینلوں پر دکھایاگیا اور میرے عزیز واقارب میں کہرام مچ گیا۔

رائو ساجد نے بتایا کہ میری کمر کا آپریشن ہوا ۔چہرے کی سرجری ہوئی ۔شدید زخمی حالت میں مجھے آغاخان ہسپتال منتقل کردیاگیا۔میں جھلس چکاتھا ۔آپریشن کے موقع پر پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنماء ٹوچی خان اور ملک صلاح الدین ڈوگر تھیٹر کے باہر موجودرہے۔23دن کے بعد مجھے ہسپتال سے فارغ کیاگیا۔رانا دلمیر نے بتایا کہ مجھے جناح ہسپتال منتقل کیاگیاتھا ۔

میری دونوں ٹانگیں بری طرح جھلس گئی تھیں۔جسم کے دیگر حصوں پربھی زخم آئے تھے۔انہوںنے کہاکہ 15روز علاج کے بعد مجھے ہسپتال سے فارغ کردیاگیا ۔انہوںنے کہاکہ اب دکھ ہوتا ہے کہ پیپلزپارٹی کی حکومت نے اس سانحہ کا نشانہ بننے والوں کے لیے کچھ نہیں کیا۔مجھے اور دیگر زخمیوں کو ملتان آنے کے بعد سندھ حکومت کی جانب سے ایک ،ایک لاکھ روپے کے چیک موصول ہوئے تھے اس کے بعد حکومت کی جانب سے کہاگیا کہ اس سانحہ میں شہید اورزخمیوں ہونیوالوں کے ورثاء کے مسائل حل کیے جائیں گے ۔

بلاول ہائوس کی جانب سے ہماری کوائف بھی مانگے گئے مگر اس کے بعد خاموشی ہوگئی۔میںنے درخواستیں دیں اور کوشش بھی کی کہ یوسف رضاگیلانی کے دور میں کم ازکم اپنے بچوں کے لیے ملازمت ہی حاصل کرسکوں مگر کسی نے توجہ نہ دی۔ میرے چھ بچے ہیں جن میں تین بیٹیاں اور تین بیٹے ہیں اور سب بے روزگار ہیں۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ شکوے شکایتیں اپنی جگہ لیکن میں آج بھی چیئرمین بھٹو اور شہید بے نظیربھٹو کے مشن کو جاری رکھے ہوئے ہوں۔