سپریم کورٹ میں مارگلہ ہلزپردرختوں کی کٹائی ازخود نوٹس کی سماعت

مارگلہ ہلزکے بفرزون پورے شہرکونظرآرہا ہے مگرسی ڈی اے سے اوجھل ہیں کیوں نہ معاملے کی انکوائری ایف آئی اے سے کرائی جائے ، جسٹس شیخ عظمت سعید اڈیالہ جیل میں ویسے بھی بڑی جگہ خالی پڑی ہے اوراسلام آباد پولیس کو تھپڑ کھانے سے فرصت نہیں ملتی،قانون کہتا ہے کرشنگ نہیں ہو سکتی لیکن یہاں سے چند میل کے فاصلے پر کرشنگ ہو رہی ہے،اگر وفاقی دارالحکومت کا یہ حال ہے تو سارے ملک کا کیا حال ہو گا، ریمارکس پہلے ذمہ داران کا تعین ہوناچاہیے اور تعمیرات ہونے سے متعلق تسلی کر لینی چاہیے، وکیل سی ڈی اے

بدھ 18 اکتوبر 2017 21:18

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 18 اکتوبر2017ء) سپریم کورٹ میں مارگلہ ہلزپردرختوں کی کٹائی ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ مارگلہ ہلزکے بفرزون پورے شہرکونظرآرہا ہے مگرسی ڈی اے سے اوجھل ہیں کیوں نہ معاملے کی انکوائری ایف آئی اے سے کرائی جائے ،کیوں کہ اڈیالہ جیل میں ویسے بھی بڑی جگہ خالی پڑی ہے اوراسلام آباد پولیس کو تھپڑ کھانے سے فرصت نہیں ملتی بدھ کو جسٹس شیخ عظمت سعید کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے مارگلہ ہل درختوں کی کٹائی ازخود نوٹس کی سماعت کی ،سیکرٹری کیڈ، آئی جی پنجاب اورمیئر اسلام آباد عدالت میں پیش ہوئے جسٹس عظمت نے کہاکہ مارگلہ ہلزکے بفرزون پورے شہرکونظرآرہا ہے مگرسی ڈی اے سے اوجھل ہیں ،جسٹس عظمت سعید نے سیکرٹری کیڈ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ کیوں نا معاملے کی انکوائری ایف آئی اے سے کروائی جائے اڈیالہ جیل میں ویسے بھی بڑی جگہ خالی پڑی ہے اور اسلام آباد پولیس کوتھپڑکھانے سے فرصت نہیں ملتی وکیل سی ڈی اے نے موقف اپنایا کہ پہلے ذمہ داران کا تعین ہوناچاہیے اور تعمیرات ہونے سے متعلق تسلی کر لینی چاہیے ، جسٹس عظمت سعید نے کہاکہ بفرزون میں تعمیرات کا الزام ہے ، پلاٹ برائے فروخت کے بل بورڈزکی تصاویر موجود ہیں جسٹس ععظمت نے ڈائریکٹرسی ڈی اے پربرہمی کا اظہارکرتے ہوئے کہاکہ سی ڈی اے کہتا ہے مارگلہ کی پہاڑیاں ان کی ذمہ داری نہیں توکیا اٹلی اورجرمنی سے پوچھیں کہ اسلام آباد کی ذمہ داری کس کی ہے ڈائریکٹرسی ڈی اے نے کہا مارگلہ ہل کی ذمہ داری سی ڈی اے کی ہے اور اقدامات بھی لیے گئے ، جسٹس عظمت سعید نے جواب کومسترد کردیا اگر تصاویر میں موجود گھروں سے متعلق پوچھ لیا تومشکلات ہونگی،جسٹس شیخ عظمت سعید نے مزید ریمارکس دیئے کہ لگتا ہے سی ڈی اے نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے،قانون کہتا ہے کرشنگ نہیں ہو سکتی لیکن یہاں سے چند میل کے فاصلے پر کرشنگ ہو رہی ہے،اگر وفاقی دارالحکومت کا یہ حال ہے تو سارے ملک کا کیا حال ہو گا،ہم نے قومی ورثے کو بچانا ہے، سی ڈی اے کہہ دے انکے بس کی بات نہیں،سی ڈی اے مارگلہ کی پہاڑیوں کو ٹھیکے پر دے دے، مال غنیمت نہیں ہے جس کا جو دل چاہے کرتا پھرے،سی ڈی اے افسران سے کام نہیں ہوتا تو آبپارہ میں دوکان ڈال لیں،کوئی غلط فہمی میں نا رہے ہم عدالتی احکامات پر عمل درآمد کروانا جانتے ہیں، بعد ازاں عدالت نے سی ڈی اے سے متعلق کیس کی سماعت 26 اکتوبر تک ملتوی کر دی، دوران سماعت سیکریٹری مائیننگ نے آبادی سے ملحقہ بلاکس کو لیز پر دینے سے متعلق فیصلے سے عدالت کو آگاہ کیا تو جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ لاء آفیسر نے تو پنجاب حکومت کی جانب سے لیز نا کرنے کا کہا تھا،کیوں نا چیف سیکرٹری پنجاب اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو بلا کر پوچھ لیں، اس پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ چیف سیکرٹری کمرہ عدالت میں موجود ہیں، اس پر جسٹس عظمت سعید نے چیف سیکرٹری پنجاب سے استفسار کیا کہ آپ بتائیں سیکرٹری مائیننگ جھوٹ بول رہے ہیں یا لائآفیسر نے جھوٹ بولا تھا،اس پر چیف سیکریٹری نے جواب دینے کیلیے ایک دن کی مہلت دینے کی استدعا کر دی،جس پر عدالت نے لیز سے متعلق پنجاب حکومت سے فیصلے کی اصل فائل طلب کر تے ہوئے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم دیدیا ، جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ لیز سے متعلق پنجاب حکومت کے فیصلے کی اصل فائل دیکھ کر ہی کیس کا فیصلہ کریں گے ، یہ عوام کے مفاد کا معاملہ ہے، حکومت پنجاب کے ارادے بدلتے رہتے ہیں، بہتر ہے اصل فائل ہمیں دکھا دیں ورنہ کسی اور کودکھانا پڑیگی، جسٹس عظمت سعید نے چیف سیکرٹری سے استفسار کیا کہ آج کل اینٹی کرپشن کا دفتر کہاں ہے جس پر چیف سیکرٹری نے عدالت کو بتایا کہ جناب فرید کوٹ لاہور میں ہے، بعدا زاں عدالت نے مارگلہ ہلزمیں لیز کے لیے مختص کیے گئے بلاکس میں سے دو بلاکس کی لیز سے متعلق کیس کی سماعت 2 نومبر تک ملتوی کر دی۔