بین العقائد مذاکرہ پرامن بقائے باہمی اورہم آہنگی کے فروغ کا کلیدی ذریعہ ہے،

بین العقائد مذہبی و نظریاتی اختلافات پر تب تک بحث نہ ہو جب تک کہ اختلاف رائے کے آداب کا خیال نہ رکھا جائے، آئین پاکستان میں اقلیت کے لفظ کو غیر مسلم سے تبدیل کیا جائے جبکہ بین العقائدہم آہنگی، صبر اور پرامن بقائے باہمی کو باقاعدہ ایک مضمون کے طور پر سکولوں میں متعارف کرایا جائے ممتاز دانشوروں، علماء کرام، ارکان پارلیمان، غیر مسلم نمائندگان اور سول سوسائٹی کی نمایاں شخصیات کا بین العقائد ہم آہنگی اور بقائے باہمی پر فوکس گروپ کے اجلاس میں متفقہ پالیسی اعلامیہ

بدھ 18 اکتوبر 2017 19:19

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 18 اکتوبر2017ء) ملک کے ممتاز مذہبی دانشوروں، علماء کرام، ارکان پارلیمان، غیر مسلم نمائندگان اور سول سوسائٹی کی نمایاں شخصیات نے اس بات پر زور دیا ہے کہ بین العقائد مذاکرہ پرامن بقائے باہمی اورہم آہنگی کے فروغ کا کلیدی ذریعہ ہے، بین العقائد مذہبی و نظریاتی اختلافات پر تب تک بحث نہ ہو جب تک کہ اختلاف رائے کے آداب کا خیال نہ رکھا جائے، آئین پاکستان میں اقلیت کے لفظ کو غیر مسلم سے تبدیل کیا جائے جبکہ بین العقائدہم آہنگی، صبر اور پرامن بقائے باہمی کو باقاعدہ ایک مضمون کے طور پر سکولوں میں متعارف کرایا جائے۔

انہوں نے اس بات کا اظہار بدھ کو بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے ادارہ تحقیقات اسلامی کے زیر اہتمام بین العقائد ہم آہنگی اور بقائے باہمی پر پیغام پاکستان کی روشنی میں منعقدہ فوکس گروپ کے چوتھے اجلاس میں متفقہ پالیسی اعلامیہ میں کیا۔

(جاری ہے)

اسلامی یونیورسٹی کے فیصل مسجد کیمپس میں منعقدہ اس اجلاس کے اعلامیہ میں کہا گیا کہ مذہبی بنیادوں پر نفرت انگیز گفتگو کی حوصلہ شکنی کی جائے۔

شرکاء نے اس امر پر زور دیا کہ تمام مذہبی سکالرز کے لئے یہ لازم قرار دیا جائے کہ وہ حب الوطنی، معاشرتی اقدار اور بین العقائد ہم آہنگی پر ہفتہ وار اجتماعات میں گفتگو کریں۔ شرکاء نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ اس امر کی کسی کو بھی اجازت نہ دی جائے کہ وہ عقیدہ میں اختلافات کے باعث پاکستان اورملکی نظریات کو نشانہ بنائے۔ اجلاس میں بلائے گئے 30 سے زائد شرکاء نے اس بات پر اتفاق کیا کہ مذہبی بنیادوں پر نفرت انگیز تقاریر کی حوصلہ شکنی کی جائے اور اس کے ارتکاب کرنے والے شخص کے خلاف انسداد دہشت گردی قانون کے تحت کارروائی کی جائے۔

بین العقائد مذاکرے کو امن کے استحکام اور پر امن بقائے باہمی کے فروغ کے لئے پالیسی کے طور پر استعمال کیا جائے۔ شرکاء نے اتفاق کیا کہ تمام مکاتب فکر کے مذہبی نظریات کو برابر توجہ دی جائے اور باہمی احترام کا رویہ اپنایا جائے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ میثاق مدینہ اور قرارداد مقاصد کی روشنی میں تمام مسلم و غیر مسلم شہریوں کو برابر سمجھا جائے۔

اجلاس کی صدارت ریکٹر جامعہ ڈاکٹر معصوم یٰسین زئی نے کی جبکہ اجلاس کی میزبانی کے فرائض ممبر قومی اسمبلی رومینہ خورشید عالم نے انجام دیئے۔ اجلاس میں ادارہ تحقیقات اسلامی کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر محمد ضیا الحق سمیت مذہبی سکالرز، مدرسین، پارلیمینٹیرین، سول سوسائٹی کے نمائندے، غیر مسلم مذہبی نمائندے اور ادارے کے محققین بھی شریک تھے۔

اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ریکٹر جامعہ ڈاکٹر معصوم یٰسین زئی نے کہا کہ مذہب کو انسانی تاریخ میں ہمیشہ سے مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے اور اس اہمیت کے پیش نظر مذہبی وسعت انتہائی اہم ہے کیونکہ یہ پر امن بقائے باہمی کے فروغ میںکلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھاکہ انسانیت کی فلاح اور بقائے باہمی ایسے پہلو ہیں جن پر تمام مذاہب کا اتفاق ہے۔

ریکٹر جامعہ نے کہا کہ سکڑتی دنیا اس بات کی متقاضی ہے کہ تمام اقوام امتیازات سے بالاتر ہو کر پرامن بقائے باہمی کے فروغ کے لئے کام کریں۔ انہوںنے ادارہ تحقیقات اسلامی کی کاوشوںکو سراہتے ہوئے کہا کہ ادارے کی کوششوں سے پیغام پاکستان کے بعد اجلاس میں مذہبی و بین العقائد ہم آہنگی پر ایک بہترین متفقہ اعلامیہ جاری کیا گیا۔ قبل ازیں اظہار خیال کرتے ہوئے ڈاکٹر ضیاء الحق نے پیغام پاکستان اور علماء کے متفقہ فتوی بارے شرکاء کو آگاہ کیا اور اس ضمن میں جاری ادارے کی کاوشوں کے حوالے سے بھی تفصیلی بریفنگ دی۔

انہوںنے بتایا کہ اسلامی یونیورسٹی کا اولین مقصد مسلم معاشروںکو متوازن سوچ اور اسلامی تعلیمات سے مزین ایسے اذہان دینا ہے جو کہ امت مسلمہ کو ترقی کی راہوں پر ڈال سکیں۔