سرسید کے 200سالہ جشن ولادت کے موقع پر یادگاری ٹکٹ کا اجراء

سرسید احمد خان نے مسلمانوں کو عہدِ جدید کے مطالبات سے روشناس کیا،جاوید انوار سرسید ڈے کی تقریب سے جنرل (ر) معین الدین حیدر، ابوسفیان اصلاحی و دیگر کا خطاب

بدھ 18 اکتوبر 2017 15:29

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 18 اکتوبر2017ء) سرسید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے زیر اہتمام برصغیر کے عظیم مفکر و ماہر تعلیم، سرسید احمد خان کا200 واں یوم پیدائش روایتی جوش و جذبہ کے ساتھ منایا گیا اور قومی و بین الاقوامی مقررین نے برصغیر کے عظیم مفکر، مصلح اور ماہر تعلیم سرسید احمد خان کی حیات و خدمات پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔

سرسید احمد خاں کے دو سو سالہ جشن ولادت کے موقع پر پاکستان پوسٹ نے ایک خصوصی یادگاری ٹکٹ جاری کیا ہے اور سٹی گورنمنٹ نے سرسید یونیورسٹی سے متصل فلائی اوور کا نام سرسید احمد خان فلائی اوور کے نام سے منسوب کر دیا ہے جس کا افتتاح میئر کراچی وسیم اخترنے چند روز پہلے کیا۔سرسیداحمد خان کی خدمات کو اجاگر کرتے ہوئے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی اولڈ بوائز ایسوسی ایشن کے صدر اور سرسید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے چانسلر جاوید انوار نے کہا کہ1857 کی جنگ ِ آزادی میں ناکامی کا سب سے بڑا سبب ٹیکنالوجی سے محرومی تھا۔

(جاری ہے)

جنگ آزادی کے دوران وائرلیس سسٹم ایجاد ہوچکا تھا اور انگریزوں نے اس ایجاد سے بھرپور فائدہ اٹھایا کیونکہ انھیں دہلی میں وائرلیس کی وجہ سے پہلے ہی پتہ چل چکا تھا کہ میرٹھ میں انگریزوں کے خلاف لڑائی کے لیے ہندوستانی سپاہ اکھٹا ہورہی ہیں جس کے لیے انھوں نے پیشگی جنگی حکمتِ عملی تیار کرلی اور جنگ میں فتح حاصل کی۔مسلمانوں کو دوسرا بڑا نقصان اس فتویٰ کی وجہ سے ہوا جس میں پرنٹنگ پریس کو اسلام کے منافی قرار دیا گیا تھا جس کی وجہ سے مسلمان تقریباًً دوسو سال تک پرنٹنگ پریس سے استفادہ نہیں کر سکے ۔

مسلمانوں کے زوال کی اس نہج پر پہنچنے کی وجہ حصولِ علم سے غفلت اور سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان سے بے توجہی تھی۔کیونکہ سائنسی علوم انگریزی زبان میں منتقل ہوچکے تھے۔یہی وجہ تھی کہ سرسید نے انگریزی زبان اور سائنسی تعلیم کو اپنا مرکز و محور بنایا اورانھیں قدامت پسندی کی تاریکیوں سے نکال کر عہدِ جدید کے مطالبات سے روشناس کیا۔چانسلر جاوید انوار نے کہا کہ سرسیداحمد خان ایک قد آور اور ہمہ صفت شخصیت تھے۔

سرسید احمد خان کا تصورِ تعلیم بڑا جامع اور ہمہ گیر تھا۔ان کے تصورِ تعلیم میں تربیت کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔اسی تعلیم اور تربیت کے نتیجے میں سرسید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے قیام کو ممکن بنایا۔ہم نے سرسید یونیورسٹی کو نئی روشنی اور ایک نئی سمت دی اور اسے ایک قابلِ مثال یونیورسٹی بنانے کے لیے اہم اقدامات کیے جس کے نتیجے میںسندھ کی چارٹراِنسپکشن اینڈ ایوالیوشن کمیٹی کی درجہ بندی میں سرسید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی نے اوّل پوزیشن حاصل کی ہے۔

قومی سطح پر جدید تقاضوں کے مطابق نوجوانوں کی اخلاقی اور تعلیمی اقدار کے فروغ کے لیے سرسید انسٹی ٹیوٹ فار یوتھ ڈیولپمنٹ اینڈ ریسرچ قائم کیا گیا ہے جوفکرِ سرسید کو جِلا دینے کا ایک قابلِ تعریف کام ہے۔جاوید انوار نے کہا کہسرسید احمد خان اپنے افکار کی وجہ سے آج بھی لوگوںکے دلوں میں زندہ ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے محسن کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اپنی تمام تر توانائیوں اور صلاحیتوں کو فروغِ تعلیم کے لیے وقف کردیں اور نئے تعلیمی اداروں کے قیام کو یقینی بنائیں۔

اس مو قع پر صدرِ محفل، سابق گورنر سندھ لیفٹنٹ جنرل (ر) معین الدین حیدر نے کہا کہ آج ہم برصغیر کے عظیم رہنما کی یاد تاذہ کر رہے ہیں جنھوں نے فکری انقلاب برپا کیا۔ہمیں سوچنا چاہیے کہ آج سرسید احمدخاں کی فکر اور خیالات کو ہمارے معاشرے میںکس طرح لاگو کیا جاسکتا ہے۔سرسید احمد خان کو دہلی کی سڑکوں پر شہزادوں کی سسکیاں سنائی دے رہی تھیں مگر ہمارے لیڈرز کو اپنے عوام کی سسکیاں نہیں سنائی دیتیں۔

لوگ آج بسوں کی چھتوں پر بیٹھ کر سفر کر رہے ہیں۔علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کی تعلیم و تربیت کی وجہ سے مڈل کلاس وجود میں آئی جو تہذیب و شائستگی کا اعلیٰ نمونہ تھی۔معروف دانشور اور علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ عربی کے سابق سربراہ پروفیسر ڈاکٹر ابو سفیان اصلاحی نے کہا کہ سرسید احمد خان نے سچ بات کہنے کا سلیقہ سکھایا۔ان کے اندر فکر کی نئی جہتیں اور جدت ترازیوں کو ڈالنے والے عنایت رسول تھے جن کو سرسید اپنا استاد قرار دیتے تھے۔

ممتاز ادیب و نقاد مبین مرزا نے کہا کہ سرسید کی زندگی ایک پوری تہذیب کی زندگی ہے۔ان کی تعلیمی تحریک بیداری کی وہ لہر تھی جو لہو میں چراغ روشن کرتی ہے۔سوئیڈن کے ہینز ورنر ویسلر نے کہا کہ سرسید نے اردو کے فروغ کے لیے بہت کام کیا اور اردو کے ساتھ جنوبی ایشیاء کی تہذیب جُڑی ہوئی ہے۔جامعہ الازہر قاہرہ کے پروفیسر ابراہیم محمد ابراہیم نے کہا کہ ہم سرسید کو ایک عظیم شخصیت مانتے ہیں۔

آخر میںعلیگڑھ مسلم یونیورسٹی اولڈ بوائز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریڑی محمد ارشد خان نے اظہارِ تشکرپیش کرتے ہوئے کہا کہ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی میں صرف ایک مسجد تھی اور ہر مسلک و عقیدہ کے لوگ اس میں نماز پڑھتے تھے۔کتنی عجیب بات ہے کہ ایک کافر ہی ہے جو ہم کو مسلمان کہتا ہے جبکہ مسلمان ایک دوسرے کو کافر قرار دے رہے ہیں۔ اس موقع پر پروفیسر ڈاکٹر ابو سفیان اصلاحی کی کتاب سرسید کا ثقافتی تصور کا اجراء سرسید یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر افضل حق کے ہاتھوں سر انجام پایا۔

بعدازاں طلباء اور علیگیرین نے ترانہ علیگڑھ پیش کیا۔قبل ازیں سرسید یونیورسٹی کے چانسلر جاوید انوار، وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر افضل حق، رجسٹرار سرفراز علی ، علیگڑھ مسلم یونیورسٹی اولڈ بوائز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری محمد ارشد خان ودیگر عہدیداران نے بُک فیئرکا دورہ کیا جہاں محسنین علیگڑھ کی تصاویر توجہ کا مرکز تھیں۔ مہمانوں نے کتابوں کے عمدہ کلیکشن اور یادگار تصاویر کی بے حد تعریف کی۔

متعلقہ عنوان :