لبرل ہیومن فورم اور شعبہ علوم ابلاغیات پنجاب یونیورسٹی کے اشتراک سے سیمینارکا انعقاد

منگل 17 اکتوبر 2017 21:15

لاہور۔17 اکتوبر(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 17 اکتوبر2017ء) مسلمانا نِ جنوبی ایشیاء کے عظیم محسن سرسیداحمد خاںؒ کے 200 ویں یوم ولادت پر لبرل ہیومن فورم اور پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ علوم ابلاغیات کے اشتراک سے سیمینار منعقد ہوا جس کا عنوان تھا ’’ سرسید ؒ: خرد مندوں کا امام‘‘جس کی صدارت ادارہ علوم ابلاغیات کی ڈائریکٹر انچارج پروفیسر ڈاکٹر نوشینہ سلیم نے کی جبکہ مہمانِ خصوصی تھے پروفیسر ڈاکٹر مہدی حسن دیگر مقررین میں نمایاں تھے،کالم نگار افضال ریحان ، پروفیسر شبیر سرور ڈاکٹر محبوب حسین شاہ، پروفیسر وقار ملک اور حسن ضیاء خاں،سرسید ؒ کی شاندار خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے معروف سکالر پروفیسر ڈاکٹر مہدی حسن نے کہا کہ یہ سرسیدؒ کا بہت بڑا کارنامہ ہے، انھوں نے مسلمانانِ جنوبی ایشیاء کوانگریزی تعلیم کی طرف راغب کیا اور معاشرے کو جدید تقاضوں کے مطابق چلانے کی تلقین کی سرسیدؒ نے علی گٹرھ تحریک کی صورت میں جس جدوجہد کا آغاز کیا اس کی جس قدر ضرورت اس وقت تھی اتنی ہی ضرورت آج بھی ہے بلکہ ہمارے موجودہ تقاضے پہلے کی نسبت بہت زیادہ بڑھ چکے ہیں اس لیے آج زیادہ بڑی تبدیلیوں کی ضرورت ہے،سر سیدؒ نے کہا کہ کاش میری ایک ہی آنکھ ہوتی تا کہ میں سب کو ایک ہی نگا سے دیکھتا اور سب کے مفادات کے لیے ایک جیسا کام کرتا، لبرل ہیومن فورم کے صدر افضال ریحان نے کہا کہ سرسید ؒ کی جدوجہد ھمہ جہتی ہے ان کی تعلیمی خدمات کا سب کو اعتراف ہے،یہ ایسی خدمت کا ثمر تھا کہ مسلمانانِ جنوبی ایشا کو اپنے حقوق کا ادراک ہوا، ان کے لائق شاگردوں نے نہ صرف یہ کہ مابعدمسلم لیگ قائم کی بلکہ مسلمانانِ ہند کو ایک واضح لائحہ عمل دیا اور قائد نے علی گٹرھ کو اپنا اسلحہ خانہ قرار دیا، اس سے بھی بڑھ کر ان کی حیثیت ایک قومی مصلح کی ہے، تمام تر مشکلات کے باوجود انھوں نے سماجی و مذہبی اصلاح کا بیٹرا اٹھایا، قدامت پسندی سے نکال کر اپنی قوم کو جدید یت کی طرف لائے، ڈاکٹر جاوید اقبالؒ نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ اگر سرسید ؒ نہ ہوتے تو آج بھی ہماری حالت قبائلی معاشرے جیسی ہونی تھی ایک مجتہد اور مدبر کی حثییت سے انھوں نے مسلمانوں کو جدید عصری علوم اور تقاضوں کو اپنانے پر راغب کیا، انھوں نے جہاں قرآن کی تفسیر شعوری بنیادوں پر کی وہیں بائیبل کی تفسیر تبعین الکلام بھی تحریر فرمائی، انھوں نے علمی و فکری بنیادوں پر اسلامی و مغربی تہذیبوں میں فاصلوں کو ختم کرنے کی کاوش کی،سرسیدؒ محض ماضی کے نہیں حال اور مستقبل کے مفکرور رہبر ہیں وہ اپنی قوم اور انسانیت کو جن اعلی اخلاقی بلندیوں پر لے جانا چاہتے تھے اس کی ضرورت آج بھی ہے ،انھوں نے اپنا رسالہ تہذیب الاخلاق‘‘ جن اعلی مقاصد کے لیے جاری کیا وہ آج بھی تشند کام ہیں، آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہماری یونیورسٹی میں سرسید ؒ کے افکار و نظریات کو بطور مضمون پڑہایا جائے،ڈاکٹر پروفیسر نوشینہ سلیم نے کہامسلمانوں اور ہندووں کو ایک خوبصورت دلہن کی خوبصورت آنکھوں سے تشبیہ دی ہے، سر سیدؒ نے تحریک پاکستان کی بنیاد 1857ء میں رکھ دی تھی، جس کی کامیابی میں پورے 100 سال صرف ہوگئے آپ نے علی گڑھ مدرسہ کی بنیادرکھی، آپ نے سب سے زیادہ تعلیم پر زور دیا تا کہ مسلمان ہندووں سے پیچھے نہ جائیں،پروفیسر شبیر سرور نے کہا کہ سرسیدؒ نے عقل و شعور کی بات کی اپنا استدلال دلیل پر اٹھایا اپنا نقطہء نظر ہمیشہ منطقی اسلوب میں سمجھایا اس لیے وہ خرد مندوں کے امام ہیں ، ان کے علمی و فکری سرمائے سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہم اپنے خیالات کا اظہار جذباتیت پھیلا کر نہیں بلکہ دلیل کی طاقت سے کریں،پروفیسر محبوب حسین شاہ نے کہا کہ سرسید اپنی تحریک کا آغاز 1857 ء کی جنگ کے بعد کیا انکی تحریک اور تعلیمات کی روشنی میں تین باتیں بہت اہم ہیں جداگانہ انتخاب اور مسلمانوں کی ترقی اور روشن خیالی سرسید کی مخالفت جہالت کے ساتھ تھی، انہوں نے ماڈرن دور کو متعارف کیا تعلیم دینا اور مسلمانوں کو شعوری طور پر بیدار کرنا ان کا مقصد تھا ۔

متعلقہ عنوان :