چترال ، یتیم ونادار بچوں کی مدد کیلئے محافظ دار الاطفال کے زیراہتمام فنڈ ریزنگ سیمینار کا انعقاد

منگل 17 اکتوبر 2017 19:11

چترال(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 17 اکتوبر2017ء)چترال میں یتیم بچوں کی تعلیم، تربیت اور ان کی کفالت کیلئے پہلی بار محافظ دار الا طفال کے نام سے یتیم خانہ کھول دیا گیا ہے، محافظ دار الاطفال میں اس وقت بارہ یتیم بچے زیر کفالت ہے جن کو محتلف نجی سکولوں میں داحل کرکے باقاعدہ تعلیم دی جاتی ہے، ان بچوں کی کفالت اور اخراجات اٹھانے کیلئے فنڈ ریزنگ یعنی مالی معاونت اکھٹا کرنے کے سلسلے میں اسی عمارت میں ایک سیمینار منعقد کیا گیا جہاں یہ بچے قیام پذیر ہے، سیمینار کی صدارت قاری عبد الرحمان قریشی امیر جمیعت علمائے اسلام چترال کر رہے تھے، تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے ضلعی امیر قاری جمشید احمد نے کہا کہ حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ جو یتیم کا کفالت کرے گا وہ حضور ؐ کے ساتھ جنت میں اکھٹا ہوگا۔

(جاری ہے)

اس موقع پر محافظ دارالاطفال کے چیئرمین مولانا عماد الدین نے دنین کے مقام پر ایک کروڑ روپے مالیت کی اپنی نجی جائیداد بھی وقف کرنے کا اعلان کیا جس میں ان یتیم بچوں اور بچیوں کیلئے ہاسٹل اور محفوظ پناہ گاہ تعمیر کیا جائے گا۔ انہوںنے کہا کہ ہمارے پاس 112 یتیم بچے رجسٹرڈ ہیں جن میں بارہ بچے کرائے کے اس ہاسٹل میں رہتے ہیں۔ جن تعلیم،حوراک، ٹراسپورٹ کیلئے ماہوار دس ہزار روپے فی بچہ لاگت آتی ہے۔

انہوںنے مخیرحضرات سے اپیل کی کہ وہ ان یتیم اور نادار بچوں کی کفالت کیلئے ان کے ساتھ مالی طور پر تعاون کرے تاکہ یہ یتیم بچے بھی بڑے ہوکر ایک اچھی اور مفید شہری بن سکے،اس موقع پر چترال کے نسانی حقوق کے علمبردار حاجی عبد الناصر نے تیس ہزار روپے، مولانا عبد الرحمان قریشی نے دس ہزار روپے کا اعلان بھی کیا۔ ایک یتیم بچے نے ماں کی یاد میں نہایت سریلی آواز میں نظم پڑھا۔

اس یتیم حانہ میں سنی، اسماعیلی اور کیلاش تینوں طبقوں کے بچے رہائش پذیر ہیں جن کو بغیر کسی تفریق کی یکساں طو ر پر تعلیم دی جاتی ہے۔ اس یتیم حانہ میں رہائش پذیر چند بچوں نے اپنی تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہم یہاں بہت خوش ہیں اور ہمیں ہر قسم کی سہولیت دستیاب ہے۔ہمیں کھانا پینا، کپڑے، ادویات، ٹیوشن، ٹرانسپورٹ اور دیگر سہولیات بھی دی جاتی ہے۔

اس ادارے کو کر ئیٹو اپروچ فار ڈیویلپمنٹ کی تیکنیکی معانت حاصل ہے، تاہم اس کو رجسٹرڈ کرنے میں سرکاری ادارے روڑھے اٹکارہے ہیں، مولانا عماد الدین نے کہا کہ اس نے ایک مرتبہ سکول میں ایک دلحراش واقعہ دیکھا جب ایک یتیم بچے کو استاد نے اسلئے مارا کہ وہ سکول میں بوٹ کی بجائے چپل پہن کر آیا تھا جب اسے پوچھا گیا کہ بوٹ کیوں نہیں پہن کر آئے تو بچے نے روتے ہوئے جواب دیا کہ میرے لئے بوٹ کون خریدے گا میرا باپ مر چکا ہے اور ماں بیمار ہے۔

اس کے بعد میں نے تہیہ کرلیا کہ ان بچوں کی کفالت کیلئے ضرور ایک محفوظ پناہ گاہ اور قیام گاہ بنائوں گا۔ سیمنار میں اس بات پر نہایت افسوس کا اظہار کیا گیا کہ چترال کے تمام چیدہ چیدہ لوگوں کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی مگر ان کو ان یتیم بچوں کی حوصلہ افزائی کیلئے توفیق ہی نصیب نہیں ہوئی۔اس سیمینار کا بنیادی مقصد ان یتیم بچوں کی کفالت کیلئے فنڈ اکھٹا کرنا تھا۔