لخلیل میں 2002ء کے بعد یہودی آبادکاروں کے لیے 31 مکانوں کی تعمیر

اسرائیلی منصوبہ بندی کونسل کا اجلاس جلدمتوقع ،مغربی کنارے میںمزید دوہزار مکانوں کی تعمیر کی منظوری دی جائیگی

منگل 17 اکتوبر 2017 12:58

مقبوضہ بیت المقدس (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 17 اکتوبر2017ء) اسرائیلی حکام نے مقبوضہ مغربی کنارے کے شہر الخلیل میں یہودی آبادکاروں کے لیے اکتیس نئے مکانات تعمیر کرنے کی اجازت دے دی ۔میڈیارپورٹس کے مطابق اسرائیل کی یہودی آبادکاری مخالف غیر سرکاری تنظیم’’ اب امن‘‘ نے ایک بیان میں اس فیصلے کی اطلاع دی اور کہا کہ اسرائیل کی ایک کمیٹی نے 2002ء کے بعد پہلی مرتبہ الخلیل میں یہودی آبادکاروں کے لیے ان مکانوں کی تعمیر کی منظوری دی ۔

’’اب امن ‘‘کے مطابق اسرائیل کی ایک منصوبہ بندی کونسل کا اجلاس متوقع ہے اور اس کے ایجنڈے میں مقبوضہ مغربی کنارے میں قائم یہودی بستیوں میں مزید دوہزار سے زیادہ مکانوں ( یونٹوں) کی تعمیر کے منصوبوں پر غور شامل ہے۔

(جاری ہے)

اسرائیل نے گذشتہ ہفتے دریائے اردن کے مقبوضہ مغربی کنارے میں یہودی آبادکاروں کے لیے قریباً چار ہزار نئے مکانوں کی تعمیر کے منصوبے کو آگے بڑھانے کا اعلان کیا تھا ۔

ایک اسرائیلی عہدہ دار کے مطابق الخلیل میں بھی نئے مکانات تعمیر کیے جائیں گے اور یہودی آباد کاروں کے لیے مختلف مراحل میں 3736 نئے مکانات کی تعمیر کی منظوری دی جائے گی۔اس کے بہ قول 2017ء کے دوران میں قریباً 12000 نئے مکانات کی منصوبہ بندی اور تعمیر کی مختلف مراحل میں منظوری دی جارہی ہے۔ یہ تعداد 2016ء کے مقابلے میں چار گنا زیادہ ہے۔ الخلیل میں اس وقت دو لاکھ کے لگ بھگ فلسطینی آباد ہیں اور شہر کے قلب میں 800 یہودی آبادکاروں کو لابسایا گیا ہے۔

ان کی قلعہ نما بستیوں کے تحفظ کے لیے اسرائیلی فوج کی بھاری نفری تعینات ہوتی ہے۔واضح رہے کہ سابق امریکی صدر براک اوباما اپنے دورِ حکومت میں مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں یہود ی آبادکاروں کے لیے تعمیرات پر اسرائیل کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے رہے تھے لیکن ان کے جانشین صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اس ضمن میں اسرائیل کو کسی قسم کے دباؤ کا سامنا نہیں ہے۔

اس لیے اس نے کھلے بندوں یہودی آبادکاری کے منصوبوں پر عمل درآمد کی رفتار تیز کردی ہے۔اسرائیل نے 1992ء کے بعد اس سال کے دوران میں اب تک یہودی آبادکاروں کے لیے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں مکانوں کی تعمیر کے بڑے منصوبوں پر کام شروع کیے ہیں جبکہ اس کو عالمی برادری کی جانب سے دباؤ کا بھی سامنا ہے اور اس نے متعدد مرتبہ خبردار کیا ہے کہ اسرائیل کے یہودی آباد کاری کے منصوبے سے تنازع کے دو ریاستی حل کے امکانات معدوم ہوجائیں گے۔

اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کی مخلوط حکومت کو یہودی آبادکاروں کی جانب سے نئیمکانوں کی تعمیر کے منصوبے شروع کرنے کے لیے دباؤ کا سامنا ہے کیونکہ یہی آباد کار ان کی انتہا پسند جماعت اور ا س کے اتحادیوں کا ووٹ بنک بھی ہیں اور ان کی بدولت ہی انھیں پارلیمان میں معمولی اکثریت حاصل ہوئی تھی۔یاد رہے کہ اسرائیل نے 1967ء کی جنگ میں بیت المقدس ،غرب اردن اور غزہ کی پٹی پر قبضہ کر لیا تھا۔اس نے بعد میں بیت المقدس کو اپنی ریاست میں ضم کر لیا تھا مگر اس اقدام کو امریکا سمیت عالمی برادری تسلیم نہیں کرتی ہے اور اس کو عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیتی ہے

متعلقہ عنوان :