پاکستان میں تمام غذائی اجناس وافر مقدار میں موجود ہونے کے باوجود 40فیصد سے زائد آبادی غذائی قلت کا شکار ہے ، ڈاکٹر محمد اقبال ظفر

جس کیلئے ضروری ہے کہ غذاء کی نہ صرف وافر دستیابی بلکہ تمام آبادی کیلئے اس کی ارزاں فراہمی کو بھی یقینی بنایا جائے، زرعی یونیورسٹی فیصل آباد

پیر 16 اکتوبر 2017 21:20

فیصل آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 16 اکتوبر2017ء) زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے وائس چانسلرپروفیسرڈاکٹر محمد اقبال ظفر نے کہا ہے کہ پاکستان میں تمام غذائی اجناس وافر مقدار میں موجود ہیں اس کے باوجود 40فیصد سے زائد آبادی غذائی قلت کا شکار ہے جس کیلئے ضروری ہے کہ غذاء کی نہ صرف وافر دستیابی بلکہ تمام آبادی کیلئے اس کی ارزاں فراہمی کو بھی یقینی بنایا جائے۔

انہوں نے کہا کہ سال 2000ء کے مقابلہ میں 2015ء میں بین الاقوامی سطح پر ساڑھے چوبیس کروڑ تارکین وطن کی موجودگی سے واضح ہوتا ہے کہ گزشتہ 17سالوں میں تارکین وطن کی شرح میں 40فیصد سے زائد اضافہ ہوا ہے جو تشویشناک حد تک زیادہ ہے۔ 50فیصد بچے اور خواتین غذائی کمی کا شکار ہیں جس کی وجہ سے 43فیصد بچوں کا وزن اور بڑھوتری سست روی کا شکارہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے بتایا کہ 33فیصد آبادی فولاد‘ 30فیصد وٹامن اور 40فیصد لوگ زنک کی کمی کا شکار ہیں یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو ان ممالک کی فہرست کا حصہ بنایا جا رہا ہے جن کی زیادہ تر عوام کو نیوٹریشن کی کمی کا سامنا ہے۔

زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں ورلڈ فوڈ ڈے کے حوالے سے منعقدہ سیمینار میں ماہرین کا اظہار خیال ، ماہرین نے بہتر معیار زندگی کیلئے دیہاتوں سے شہروں کی جانب نقل مکانی اور اسکے نتیجہ میں شہروں اور مضافات کی ذرخیز زرعی زمینوں پر رہائشی کالونیو ںکی تعمیر پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے حکومت پر زور دیا ہے کہ بنیادی ڈھانچے کی ترقی‘ تعلیم و صحت کی سہولیات میں بہتری اور ایگروانڈسٹری کے ذریعے روزگار کے مواقعوں کا رخ دیہی علاقوںکی جانب موڑا جائے تاکہ آبادی کی شہروں کی جانب نقل مکانی کے رجحان میں کمی لائی جا سکے۔

یونیورسٹی کی کلیہ فوڈ نیوٹریشن و ہوم سائنسز کے زیراہتمام ورلڈ فوڈ ڈے کے افتتاحی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد اقبال ظفر نے کہا کہ زرعی اجناس ‘ پھل اور سبزیو ں کی پیداواری لاگت میں کمی اور فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ سے نہ صرف یہ اشیاء صارفین کو سستی دستیاب ہونگی بلکہ کسان کی آمدن میں بھی معقول اضافہ سے اسکا معیار زندگی بلند ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ زرعی زمینوں کی تقسیم در تقسیم اور فی ایکڑ کم ہوتے ہوئے منافع سے دیہاتی نوجوان بہتر روزگار کیلئے شہروں کی جانب رخ کرتے ہیں لہٰذا وقت آ گیا ہے کہ ایک طرف سہولیات اور روزگار کے مواقعوں کا رخ دیہاتوں کی جانب کیا جائے تو دوسری جانب وراثتی زرعی زمینوں کی تقسیم میں اصلاحات متعارف کروائی جائیں تاکہ کاشتکاری کوپرکشش اور منافع بخش ذریعہ روزگار کے طو رپر آگے بڑھا کرشہروں کی جانب نقل مکانی کے رجحان میں کمی لائی جائے۔

انہوں نے کہا کہ آبادی میں ہونے والے ہوشربا اضافہ کے مقابلہ میں تمام شعبہ ہائے زندگی میں سہولیات اور وسائل وقت کے ساتھ کم ہورہے ہیں لہٰذا ہمیں ایک طرف بڑھتی ہوئی آبادی میں کمی کیلئے اقدامات تو دوسری جانب موجودہ آبادی خصوصاً نوجوانوں کی صلاحیت اور توانائی کو مثبت طریقے سے چینلائزکرنا ہوگا۔ سیمینار سے ڈین کلیہ فوڈ‘ نیوٹریشن و ہوم سائنسز ڈاکٹر مسعود صادق بٹ، ڈاکٹر نزہت ہما‘ رفحان میظ کے نسیم اعجاز اور پنجاب فوڈ اتھارٹی کے ڈاکٹر سہیل نے بھی خطاب کیا۔