انڈس ڈیلٹا میں میٹھے پانی کی قلت کی وجہ سے سمندرکے آگے بڑھنے سے لاکھوں ایکڑ زمین بنجر بن گئی ہے، امیرحیدرشاہ

ایف اے او کی رپورٹ کے مطابق ایک ارب لوگ خوراک کی قلت کا شکار ہیں، 50 فیصد سے زائد لوگ دیہاتوں میں آباد ہیں، محمد علی شاہ اور دیگرکا سیمینار سے خطاب

پیر 16 اکتوبر 2017 19:16

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 16 اکتوبر2017ء) پاکستان فشر فوک فورم کی طرف سے 16 اکتوبر خوراک کے عالمی دن کے حوالے سے اعلانیہ ہفتے کے دوران گذشتہ روز کراچی کی مقامی ہوٹل میں ’’کسان اور ماہی گیر عورتوں پر سرمایہ کاری کر کے خوراک کے تحفظ اور دیہی ترقی کو یقینی بنانا‘‘کے زیر عنوان سیمینار منعقد کیا گیا، جس میں سندھ اسمبلی کی اسٹیڈنگ کمیٹی آن فوڈ کے ممبر اور ایم پی اے امیر حیدر شاہ، ممبر صوبائی اسمبلی حاجی شفیع محمد جاموٹ، پاکستان فشر فوک فورم کے مرکزی چیئرمین محمد علی شاہ، چیف منسٹر کے کوآرڈی نیٹر آن نیوٹریشن میر حسین علی، پائلر کے ڈائریکٹر کرامت علی، زرعی یونیورسٹی ٹنڈو جام کے پروفیسر اسماعیل کمبھار، انسانی حقوق کے رہنما اقبال ڈیتھو، فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کے اشرف علی، چیئرپرسن صوبائی کمیشن آن اسٹیٹس آف وومن نزہت شیریں، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے اسد اقبال، نیشنل کمیشن آن ہیومن رائٹس کی انیس ہارون، ماحولیاتی ماہر ناصر پنہور و دیگر نے شرکت کی۔

(جاری ہے)

سندھ اسمبلی کی اسٹیڈنگ کمیٹی آن فوڈ کے ممبر اور ایم پی اے امیر حیدر شاہ نے کہا کہ صوبہ سندھ معدنی وسائل سے مالا مال ہے، انہوں نے کہا کہ انڈس ڈیلٹا میں میٹھے پانی کی قلت کی وجہ سے سمندرکے آگے بڑھنے کی وجہ سے لاکھوں ایکڑ زمین بنجر بن گئی ہے اور مچھلی کی پیداوار میں بھی بڑے پیمانے پر کمی پیدا ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مچھلی بھی خوراک کا اہم ذریعہ ہے، لیکن جھیلوں پر بااثر افراد کے قبضوں نے عام ماہی گیر کو خوراک کے اس ذریعہ سے بھی محروم کر دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ماہی گیر اور کسان کو اپنی محنت کا صحیح حق نہیں ملتا۔ پاکستان فشر فوک فورم کے مرکزی چیئرمین محمد علی شاہ نے کہا کہ دنیا میں خوراک کی قلت نہیں، اصل بات انسان کو صحیح طریقے سے خوراک کی فراہمی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایف اے او کی رپورٹ کے مطابق ایک ارب لوگ خوراک کی قلت کا شکار ہیں، جس میں 50 فیصد سے زائد لوگ دیہاتوں میں آباد ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں خوراک کی قلت نہیں بلکہ حقیقی جمہوریت کی قلت ہے۔ انہوں نے کہا کہ جمہوریت کی قلت کی وجہ سے عریب آدمی کی آواز کو نہیں سنا جاتا۔ انہوں نے کہا کہ ہم سب کو مل کر خوراک کی قلت کیخلاف جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی آبادی کے 58 فیصد لوگ خوراک کی قلت کا شکار ہیں، جبکہ صوبہ سندھ 71 فیصد خوراک کی قلت کا شکار ہے۔

انہوں نے کہا کہ خوراک کی قلت کا سب سے بڑا سبب غیر منصفانہ تقسیم ہے۔ انہوں نے کہا کہ روایتی بیج اور دیرینہ حیاتیاتی آبادگای کے طریقے جدید آبادگای سے مقابلہ نہیں کرسکتے، ملٹی نیشنل کمپنیوں کا صنعتی اور جدید سائنسی آبادگاری کے ذریعے چھوٹے آبادگاروں اور فطری قوموں اور برادریوں کی خوراک پر کنٹرول ہے، جس کی وجہ سے انہیں شدید نقصان پہنچا ہے۔

انہوں نے کہا کہ خوراک کی قلت دو طریقوں سے ختم ہوسکتی ہے، ایک وہ جو خوراک پیدا کرتے ہیں اور دوسرا انڈسٹریل ایگریکلچر کو ختم کر کے ایکالوجیکل ایگریکلچر سہارا دینا ہے۔ ایم پی اے حاجی شفیع محمد جاموٹ نے کہا کہ پاکستان کی 30 فیصد آبادی انتہائی غربت کی زندگی بسر کر رہی ہے، جس کیلئے ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کا سامنا کرنا انتہائی مشکل ہے اور ایسے اثرات میں خوراک کی کمی سرفہرست ہے۔

ملک میں ماحولیات کا سب سے متاثر کن طبقہ کسان، ماہی گیر اور خاص طور پر عورتیں ہیں جو دوسروں کیلئے خورد و نوش کا سامان تیار کر کے اپنی زندگی کود ائو پر لگا دیتی ہیں۔ چیف منسٹر کے کوآرڈینیٹر آن نیوٹریشن میر حسین علی نے کہا کہ حکومت سندھ غذائیت کی بہتری کیلئے ملٹی سیکٹوریل نوٹیشن اسٹے ٹجی پر کام کر رہی ہے، جو مختلف اداروں جیسا کہ صحت، تعلیم، آبادی، زراعت اور مال مویشی پر مشتمل ہے۔

ناصر پنہور نے کہا کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور موسمی تبدیلی کی وجہ سے زرعی شعبہ بہت زیادہ متاثر ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ موسمی تبدیلی کی وجہ سے گرمی پد میں اضافہ ہو رہا ہے، جبکہ گندم کی پیداوار میں بھی کمی پیدا ہو رہی ہے۔ انیس ہارون نے کہا کہ خوراک پیدا کرنے والوں کی بڑی اہمیت ہے، لیکن بدقسمتی سے خوراک پیدا کرنے والے خود خوراک کی قلت کا شکار ہیں۔

ملک میں صوبہ سندھ سب سے زیادہ خوراک کی قلت کا شکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ گذشتہ برس تھرپار میں قحط سالی پیدا ہوئی، جس کی وجہ سے سینکڑوں کی تعداد میں لوگ موت کا شکار ہوگئے تھے، جبکہ سرکاری گودام گندم سے بھرے ہوئے تھے، لیکن بہتر پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے خوراک کی رسائی بہتر طریقے سے نہیں ہوسکی ۔ انہوں نے کہا کہ عجیب بات ہے کہ زرعی ملک ہونے کے باوجود بھی ہمارے ملک میں زرعی پالیسی تشکیل نہیں دی گئی ہے۔

اقبال ڈیتھو نے کہا کہ دنیا میں جو بھی پالیسیاں یا پروگرام ترتیب دیئے جا رہے ہیں ان میں چار چیزوں کا خاص خیال رکھا جا رہا ہے، جن میں نوجوان، صنفی برابری، اسٹیک ہولڈرز اور اکائونٹبلٹی شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دنیا میں کروڑوں لوگ رات کا کھانے کھائے بغیر سوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں پیسوں کی کمی نہیں بلکہ خوراک کے تحفظ اور فراہمی کی قلت ہے۔

اسماعیل کمبھار نے کہا کہ خوراک حاصل کرنے کے زراعت اور ماہی گیری اہم ذرائع ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خوراک کا تحفظ کیا ہے، کیا پاکستان میں خوراک کو تحفظ حاصل ہی انہوں نے کہا کہ پاکستان میں 24ملین ٹن گندم کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن پاکستان میں 25 ملین ٹن گندم دستیاب ہے، اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان خوراک کی قلت کا شکار نہیں، مگر طبقاتی نظام کی وجہ سے غریب دن بہ دن غریب اور امیر دن بہ دن امیر ہوتا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مسئلہ خوراک کی قلت کا نہیں بلکہ خوراک کی صحیح طریقے سے رسائی کا ہے۔ ملک کا بڑا مسئلہ معیاری خوراک کا فراہم نہ ہونا ہے، جس کی وجہ سے عوام مختلف موذی امراض میں مبتلا ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ خوراک کے تحفظ کے ساتھ ساتھ خوراک کو معیاری بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ اس موقع پر نزہت شیرین، ناصر پنہور، اشرف علی، اسد اقبال و دیگر نے خطاب کیا۔

متعلقہ عنوان :