بین الاقوامی اداروں کے تعاون سے پاکستان میں غذائی تحفظ کیلئے سنجیدہ اقدامات کئے جا رہے ہیں

دیہی علاقوں میں بنیادی ڈھانچہ کی ترقی، روزگار کے مواقع بڑھا کر آبادی کی منتقلی کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے وفاقی وزیر سکندر حیات خان بوسن کاعالمی یوم خوراک کے حوالہ سے تقریب سے خطاب

پیر 16 اکتوبر 2017 18:48

بین الاقوامی اداروں  کے تعاون سے پاکستان میں غذائی تحفظ کیلئے سنجیدہ ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 16 اکتوبر2017ء) وفاقی وزیر برائے نیشنل فوڈ سیکورٹی اینڈ ریسرچ سکندر حیات خان بوسن نے کہا ہے کہ زرعی شعبہ کی ترقی کیلئے دیہی علاقوں میں بنیادی ڈھانچہ کی ترقی، روزگار کے مواقع بڑھا کر اور کاروباری سرگرمیوں اضافہ کرکے آبادی کی منتقلی کا کنٹرول کیا جا سکتا ہے، بین الاقوامی اداروں ایف اے او، ڈبلیو ایف پی اور دیگر زرعی اداروں کے تعاون سے پاکستان میں غذائی تحفظ کیلئے سنجیدہ اقدامات کئے جا رہے ہیں۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے عالمی یوم خوراک کے حوالہ سے قومی زرعی تحقیقاتی سنٹر (این اے آر سی) میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ تقریب کا انعقاد ’’عالمی یوم خوراک دیہی آبادی کی شہروں کی جانب منتقلی، تحفظ خوراک اور زراعت کی اہمیت‘‘ کے موضوع پر کیا گیا۔

(جاری ہے)

اس موقع پر صدر اور وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان کے عالمی یوم خوراک کے حوالہ سے پیغامات بھی پڑھ کر سنائے گئے جس میں حکومت پاکستان اور ایف اے او کے مابین تعلقات پر بھی روشنی ڈالی گئی۔

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر سکندر حیات خان بوسن نے کہا کہ دیہی آبادی کی شہروں کی جانب منتقلی ہمیں اس بات کی جانب سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ اس سے تحفظ خوراک کو خطرات لاحق ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں دیہی آبادی کو ایسی سہولیات مہیا کرنا ہوں گی جس سے وہ شہروں کی جانب منتقل نہ ہوں بلکہ دیہات میں ہی ان کی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ دیہات میں بہتر انفراسٹرکچر، روزگار اور کاروبار کے مواقع مہیا کرنے سے دیہی آبادی کے معیار زندگی کو بڑھایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دیہی آبادی کیلئے سہولیات کی فراہمی میں اضافہ کرکے ان کی منتقلی کو کنڑول کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے بین الاقوامی اداروں ایف اے او اور ڈبلیو ایف پی کا شکریہ ادا کیا کہ جن کی کوششوں اور معاونت سے پاکستان میں تحفظ خوراک کے بارے میں سنجیدہ اقدام کئے جا رہے ہیں۔

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے وفاقی سیکرٹری برائے قومی تحفظ خوراک و تحقیق فضل عباس میکن نے کہا کہ ہمیں اپنے قدرتی ذرائع کو ضائع کیے بغیر ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی کے لحاظ سے خوراک کی پیداوار میں اضافہ کو یقینی بنانا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ ایک اندازے کے مطابق 2050ء تک 300 ملین آبادی ہونے کا امکان ہے، ہمیں اپنی دیہی آبادی کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے کاشت کے نئے طریقے اور جدید ٹیکنالوجی کو اپنانا ہو گا۔

ایف اے او کی نمائندہ مس مینا ڈولٹچی نے کہا کہ ہمارا ادارہ پاکستان میں دیہی آبادی کی ترقی اور زراعت کی بڑھوتی کیلئے برسر پیکار ہے، اس طرح سے دیہی آبادی کو گائوں میں رہنے کے قابل بنانا ہے، اس کے ساتھ ساتھ مہاجرین اور کیمپس میں بسنے والے لوگوں کو خوراک کی فراہمی کا ذمہ بھی ہمارے ادارے نے اٹھایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں یقین دلاتی ہوں کہ پاکستان میں زراعت کی ترقی اور کسانوں کے معیار زندگی کو بدلنے میں ہمارا ادارہ اپنا بھر پور کردار ادا کرتا رہے گا۔

اس موقع پر ڈبلیو ایف کے کنٹری ڈائریکٹر مسٹر فنبار کرن نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہمارا ادارہ حکومت پاکستان کے ساتھ مل کر ملک میں خوراک و غذائیت کے تحفظ کیلئے کام کر رہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ خاص طور پر 2030ء تک زیرو ہنگر پروگرام کے تحت اس حوالے سے بہت سے منصوبہ جات پر کام جاری رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ بھوک کا خاتمہ زراعت میں سرمایہ کاری بڑھانے، دیہی آبادی کی ترقی اور انہیں وسائل اور سہولیات مہیا کرنے سے ہی ممکن ہے۔

ور یہ سب یو این، پارٹنرز، سول سوسائٹی، نجی اور سرکاری شعبہ کے اشتراک سے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ اس موقع پر چیئرمین پی اے آر سی ڈاکٹر یوسف ظفر نے کہا کہ دیہی آبادی کی شہروں کی طرف منتقلی کی بڑی وجوہات سہولتوں کا فقدان، عدم تحفظ خوراک، موسمی تغیرات، غربت اور کم وسائل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں دیہات سے شہروں کی طرف آبادی کی منتقلی تیزی سے ہو رہی ہے۔

1951ء کی رپورٹ کے مطابق 82.2 فیصد آبادی دیہات میں اور 17.8 فیصد آبادی شہروں میں رہتی تھی مگر اب 2017ء میں 63. 6 فیصد آبادی دیہات میں اور 36.4 فیصد آبادی شہروں میں رہتی ہے۔ جو کہ تقریبا دوگنی ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دیہات میں رہنے والی آبادی جو کہ فصلات کی پیداوار ، لائیو سٹاک، فشریزاور جنگلات سے منسلک تھی ان کے ذرائع آمدن 22.6 فیصد کم ہو چکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر دیہی آبادی کی شہروں کی جانب منتقلی اسی طرح جاری رہی تو تحفظ خوراک کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تقریب سے زراعت کے اہم پہلوئوں پر روشنی پڑی ہے اور ملکی زراعت کو بہتر کرنے میں مدد ملے گی۔ Oxfam کے کنٹری ڈائریکٹر نے اس موقع پر خطاب میں کہا کہ ہمارا ادارہ دیگر اداروں کی مشاورت سے دیہی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانے میں کوشاں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے پروگرام کا مقصد لوگوں کی خوراک کی ضروریات کو پورا کرنا اور بہتر معیشت کو یقینی بنانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پروگرام کے توسط سے دیہی علاقوں میں رہنے والے لوگوں بالخصوص عورتوں کو بھی اس قابل بنانا ہے کہ وہ ملکی معیشت کو بہتر بنانے میں اپنا بھر پور کردار ادا کر سکیں۔ تقریب کے آخر میں ڈائریکٹر جنرل این اے آر سی ڈاکٹر محمد عظیم نے شرکاء کا شکریہ ادا کیا اور امید ظاہر کی کہ بین الاقوامی اداروں کی معاونت سے زراعت کے شعبہ میں خاطر خواہ ترقی ممکن ہو گی اور ملک میں بھوک کا خاتمہ اور غذائی تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے گا۔