بنگلہ دیشی حکومت سے اختلافات،چیف جسٹس جبری رخصت پر آسٹریلیاروانہ

حکومتی وزراء بیان بازی کررہے ہیں بیمارنہیں ہوں،دس نومبر کو واپس آئوں گا،عدلیہ کی آزادی سے متعلق گہرے خدشات ہیں،چیف جسٹس

اتوار 15 اکتوبر 2017 12:41

ڈھاکہ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 15 اکتوبر2017ء) بنگلہ دیشی حکومت اورسپریم کورٹ میں ٹھن گئی جس کے بعد سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو جبری رخصت پر بیرون ملک بھیج دیا گیا تاہم ادھر جسٹس سرنیدرکمارنے ایسے اطلاعات کی تردید کرتے ہوئے کہاہے کہ حکومتی وزراء ان کے خلاف بیان بازی کررہے ہیں اورکہہ رہے ہیں کہ میں بیمار ہوں،میں بیمار نہیں ہوں ،رخصت پر جارہا ہوں اگلے ماہ دس تاریخ کو واپس آجائوں گا،یادرہے کہ مذکورہ چیف جسٹس نے قانون سازپارلیمنٹ کے ارکان کی جانب سے اعلیٰ عدلیہ کے ججز کو ہٹانے کاقانون منسوخ کردیاتھا جس کے بعدحالات کشیدہ ہوچکے ہیں، غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق جسٹس سریندر کمار اپنی ایک ماہ کی رخصت کے دوران ڈھاکا سے آسٹریلیا کے لیے روانہ ہو گئے۔

بنگلہ دیش کے چیف جسٹس نے وطن سے رخصت ہوتے ہوئے ملکی عدلیہ کی آزادی سے متعلق گہرے خدشات کا اظہار کیا، چیف جسٹس کی آسٹریلیا روانگی کے وقت اس جنوبی ایشیائی ملک میں یہ افواہیں مسلسل گردش کر رہی تھیں کہ انہیں مبینہ طور پر حکومت کی طرف سے دباؤ ڈال کر یہ رخصت لینے پر مجبور کیا گیا۔

(جاری ہے)

اس مبینہ دباؤ کی وجہ چیف جسٹس سنہا کا سنایا جانے والا وہ تاریخی عدالتی فیصلہ بنا، جو ڈھاکا حکومت کی خواہشات کے برعکس تھا۔

چیف جسٹس سنہا نے اپنی عدالتی ذمے داریوں سے ایک ماہ کی جو رخصت لی تھی، اس کا آغاز چند روز قبل ہوا تھا۔ اس رخصت سے محض چند ہی ماہ قبل چیف جسٹس سنہا کی سربراہی میں ڈھاکا میں ملکی سپریم کورٹ کے ایک بینچ نے بنگلہ دیشی پارلیمان کے یہ اختیارات ختم کر دیے تھے کہ یہ قانون ساز ادارہ ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ کے ارکان کو ان کے عہدوں سے ہٹا سکتا ہے۔

آسٹریلیا کے لیے اپنے روانگی سے قبل چیف جسٹس سریندر کمار سنہا نے اپنے ایک تحریری بیان میں کہاکہ مجھے (ملک میں) عدلیہ کی آزادی سے متعلق تشویش ہے۔اپنے اس بیان کے ذریعے چیف جسٹس سنہا نے اس حکومتی تنقید پر بھی عدم اطمینان کا اظہار کیا جس کا انہیں ملکی ججوں کی پارلیمان کی طرف سے برطرفی سے متعلق مقدمے میں فیصلے کے بعد سے سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔

چیف جسٹس سریندر کمار سنہا نے اپنے اس بیان میں یہ بات بھی زور دے کر کہی کہ وہ 10 نومبر کو اپنی رخصت ختم ہو جانے کے بعد واپس وطن لوٹیں گے۔ ساتھ ہی انہوں نے بنگلہ دیشی وزیر انصاف کے ان دعووں کی بھی تردید کی کہ ان کی رخصت اور بیرون ملک روانگی کی وجہ ان کی علالت بنی۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگست میں انہوں نے جو عدالتی فیصلہ سنایا تھا، اس پر کئی سیاسی حلقوں، وکلاء، حتیٰ کہ حکومتی وزراء اور خود وزیر اعظم (شیخ حسینہ) کی طرف سے کی جانے والی تنقید بھی ان کے لیے شرمندگی کا باعث بنی۔

ڈھاکا میں بنگلہ دیش کی اعلیٰ ترین بار اسوسی ایشن یہ بات کئی مرتبہ کہہ چکی ہے کہ چیف جسٹس سنہا کو دباؤ ڈال کر رخصت پر جانے پر مجبور کیا گیا۔ بنگلہ دیشی سپریم کورٹ بار اسیوسی ایشن کے صدر زین العابدین کے مطابق حکومت کی طرف سے عدلیہ کا تعاقب کیا جا رہا ہے۔

متعلقہ عنوان :