بھارت سمیت دیگر مخالف طاقتیں سی پیک کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں ، ہمیں اسے پایہ تکمیل تک پہنچانا ہے ‘ مشاہد حسین سید

سی پیک نہ صرف پاکستان بلکہ جنوبی ایشیاء کے پورے خطے ،وسطی ایشیاء کی مسلم ریاستوں کی معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرے گا، اسکے ذریعے توانائی‘ انفراسٹرکچر‘ گوادربندگاہ اور سپیشل اکنامک زونز کے قیام اور انہیں ترقی دینے کے نادر مواقع میسر آئیں گے‘ خطاب

ہفتہ 14 اکتوبر 2017 18:10

بھارت سمیت دیگر مخالف طاقتیں سی پیک کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں ..
لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 14 اکتوبر2017ء) پارلیمانی کمیٹی برائے چین پاکستان اقتصادی راہداری کے چیئرمین سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا ہے کہ سی پیک وطن عزیز کے روشن مستقبل کا ضامن ہے،یہ ہماری اکنامک سکیورٹی اور خوشحالی کی نوید ہے، بھارت اور پاکستان مخالف دیگر طاقتیں اس منصوبے کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کررہی ہیں مگر ہمیں اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچانے کے لئے اسی عزم اور جذبے کا ثبوت دینا ہوگا جس کا مظاہرہ ہم نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کی خاطر کیا تھا،سی پیک نہ صرف پاکستان بلکہ جنوبی ایشیاء کے پورے خطے اور وسطی ایشیاء کی مسلم ریاستوں کی معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرے گا۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے نظریہٴ پاکستان ٹرسٹ کے زیر اہتمام ایوانِ کارکنانِ تحریک پاکستان لاہور میں منعقدہ فکری نشست بعنوان ’’سی پیک: پاکستان کی معاشی خوشحالی اور استحکام کے امکانات‘‘ میں اپنے کلیدی خطاب کرتے ہوئے کیا ۔

(جاری ہے)

اس موقع پر تحریک پاکستان کے مخلص کارکن‘ سابق صدر مملکت اور نظریہٴ پاکستان ٹرسٹ کے چیئرمین محمد رفیق تارڑ ،نظریہٴ پاکستان ٹرسٹ کے وائس چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد‘ چیف کوآرڈینیٹر میاںفاروق الطاف‘ ممتاز سیاسی و سماجی رہنما بیگم مہناز رفیع‘ رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر شذرہ منصب علی سمیتمختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے خواتین و حضرات اور طلبا و طالبات کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔

سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ سی پیک دنیا کے دو ملکوں کے درمیان طے پانے والا تاریخ کا سب سے وسیع منصوبہ ہے جس کی مالیت تقریباً پچاس ارب ڈالر ہے اور یہ پندرہ سال یعنی 2015ء تا 2030ء مکمل ہوگا۔ یہ کسی بھی فرد‘ جماعت یا صوبے سے بالاتر ایک قومی سٹریٹیجک منصوبہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ بانئ پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ صاحبِ بصیرت تھے۔ اُنہوں نے اکتوبر 1947ء میں ایک امریکی خاتون صحافی مارگریٹ بورک وہائٹ کو انٹرویو میں پیشین گوئی کے انداز میں فرمایا تھا کہ پاکستان دنیا کا محور و مرکز ثابت ہوگا جس کے گرد مستقبل کی عالمی سیاست گھومے گی۔

تاریخ نے بابائے قوم کے وژن کو سچ ثابت کر دکھایا۔ پاکستان ہی 1970ء میں چین اور امریکہ کو ایک دوسرے کے قریب لایا۔ 1980ء کی دہائی میں افغانستان کی جنگ میں پاکستان کے سرگرم کردار کی بدولت سوویت یونین کے حصے بخرے ہوئے اور کمیونزم کا نظریہ ختم ہوگیا۔ 1998ء میں پاکستان دنیا کی ساتویں اور عالم اسلام کی پہلی ایٹمی طاقت بنا۔ اِن تینوں کا شمار دنیا کے اہم ترین واقعات میں ہوتا ہے۔

اب سی پیک نے عالمی سیاست میں پاکستان کی اہمیت دنیا پر عیاں کر دی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ چین پاکستان کا ایک ایسا دوست اور ہمسایہ ہے جو ہر مشکل وقت میں ہمارے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ 1965ء اور 1971ء کی پاک بھارت جنگوں میں بھی چین نے ہی ہماری امداد کی حالانکہ ہمارے دفاعی معاہدے امریکہ کے ساتھ تھے جس نے عین موقع پر ہمیں دھوکہ دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ کی بے وفائیوں کی وجہ سے صدر ایوب خان کا جھکائو چین کی طرف ہوا جو بتدریج بڑھتا گیا اور آج ہم پاک چین دوستی پر بڑا فخر کرتے ہیں۔

انہوںنے انکشاف کیا کہ چین نے 1965ء سے 1980ء تک پاکستان کو فراہم کئے جانیوالے فوجی ساز و سامان کی کوئی قیمت وصول نہیں کی۔ پاکستان نے بھی چین کے دوستانہ رویے کے جواب میں اس کے مفادات کو ہمیشہ پیش نظر رکھا۔ چین کے لئے اقوامِ متحدہ کی رکنیت کا معاملہ ہویا پھر چین کا دنیا سے فضائی رابطہ قائم کرنے کی بات ہو‘ پاکستان نے ہمیشہ چین کے مفادات کو اوّلیت دی ہے۔

دراصل چین اور پاکستان کے درمیان اعتماد کا رشتہ ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نئی افغان پالیسی کا اعلان کرتے وقت جب پاکستان کے خلاف دھمکی آمیز زبان استعمال کی تو سب سے پہلے عوامی جمہوریہ چین نے اس کی پُرزور مذمت کی۔ چین کے صدر شی جن پنگ بھی دو ٹوک الفاظ میں کہہ چکے ہیں کہ پاکستان اور چین آپس میں دو بھائی ہیں۔اُنہوں نے زور دے کر کہا کہ طاقت کا توازن مغرب سے مشرق کی طرف منتقل ہوگیا ہے۔

ایک لحاظ سے مغربی یورپ کا معاشی و سماجی زوال شروع ہوچکا ہے۔ اسی طرح 2003ء میں امریکہ کی طرف سے عراق پر بلاجواز حملے کے بعد امریکہ بھی زوال پذیر ہے کیونکہ 9/11کے بعد امریکہ مختلف جنگوں پر تین کھرب ڈالرز خرچ کرچکا ہے جس سے امریکی معیشت شدید دبائو کا شکار ہو گئی ہے۔ اب امریکہ دنیا کی اکلوتی سپرپاور نہیں رہا بلکہ طاقت کے نئے مراکز وجودمیں آ چکے ہیں۔

امریکہ کے مقابلے میں چین کی معیشت کہیں تیزی سے ترقی کررہی ہے اور خود امریکی ماہرین کہہ رہے ہیں کہ مستقبل میں جہاں امریکہ کی معیشت میں 35فی صد اضافہ ہوگا‘ وہاں چین کی معیشت میں 300فیصد اضافہ متوقع ہے۔ سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ چینی قیادت نے اپنی بہتر معاشی حکمت عملی سے گزشتہ 25سالوں میں 70کروڑ چینیوں کو غربت سے نکال کر خوش حالی سے ہمکنار کیا۔

اُنہوں نے کہا کہ 21ویں صدی درحقیقت ایشیاء کی صدی ہے اور ہمارے پالیسی سازوں کو اب واشنگٹن‘ لندن‘ برسلز وغیرہ کی طرف دیکھنے کی بجائے اب ایشیائی ممالک کی طرف دیکھنا چاہیے۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ چین نے اس وقت سی پیک پر سرمایہ کاری کا آغاز کیا جب کوئی اسلامی یا غیر اسلامی ملک غیر یقینی حالات کے باعث پاکستان میں سرمایہ کاری پر تیار نہ تھا۔

اُنہوں نے کہا کہ سی پیک کے ذریعے توانائی‘ انفراسٹرکچر‘ گوادربندگاہ اور سپیشل اکنامک زونز کے قیام اور انہیں ترقی دینے کے نادر مواقع میسر آئیں گے۔ ہمارے تھر کے علاقہ میں کوئلے کے دنیا کے پانچویں بڑے ذخائر موجود ہیں جنہیںابھی تک استعمال میں نہ لایا جاسکا تھا مگر اب سی پیک کے طفیل وہاں نہ صرف کان کنی کا آغاز ہوگیا ہے بلکہ عنقریب وہاں بجلی کی پیداوار بھی شروع ہوجائے گی۔

سی پیک کی بدولت مواصلات کے شعبے میں بہت بڑا انقلاب برپا ہو جائے گا اور کراچی تا پشاور ریلوے ٹریک دو رویہ ہو جائے گا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ فائبر آپٹک اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبوں میں بھی قابل رشک ترقی دیکھنے کو ملے گی۔ دونوں ممالک کے باہمی رابطوں میں وسعت آئے گی۔ اب بھی 22 ہزار پاکستانی طالب علم چین میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں جن میں سے 5 ہزار کو چین کی طرف سے سکالر شپس ملی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بھارت حسد کے باعث سی پیک کے متعلق منفی پراپیگنڈہ کر رہا ہے اور کلبھوشن یادیو کی گرفتاری اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ امریکہ اور بھارت کے سی پیک پر اعتراضات کے باوجود ہماری سیاسی و عسکری قیادت پرعزم ہے کہ اس قومی منصوبے پر کام پورے جوش و جذبے سے جاری رکھا جائے گا اور امریکہ کے دبائو کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اسے ہر صورت پایہٴ تکمیل تک پہنچایا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ سی پیک کے تحت پاکستان کے مختلف صوبوں میں کل 9 سپیشل اکنامک زونز بنیں گے جن سے فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم تکنیکی ماہرین اور ہنرمندوں کی کھیپ تیار کرنے پر بھرپور توجہ دیں۔ انہوں نے کہا یہ پراپیگنڈہ سراسر بے بنیاد ہے کہ سی پیک کے منصوبوں پر چینی لیبر کا غلبہ ہو گا۔ انہوں نے واضح کیا کہ معاشی ترقی کی بناء پر آج کل چین میں ایک فیکٹری مزدور ماہانہ 80 ہزار پاکستانی روپے کے قریب کما رہا ہے جبکہ پاکستان میں اس کی تنخواہ پندرہ تا بیس ہزار ہو گی‘ لہٰذا وہ مزدور کیونکر پاکستان میں آنا چاہے گا بلکہ اب تو چیز سرمایہ کار اپنی صنعتوں کو ری لوکیٹ کرنے کی خاطر دیگر ایشیائی ممالک کا رخ کر رہے ہیں کیونکہ وہاں لیبر سستی ہے۔

سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ ہمیں قائداعظم محمد علی جناحؒکی زندگی سے سبق حاصل کرنا چاہئے جنہوں نے بغیر کسی سرمایے اور فوج کے ہمارے لیے یہ مملکت خداداد حاصل کی تھی درحقیقت کردار کی پختگی‘ جرأت ایمانی اور عوام کے اعتماد کی بدولت انہوں نے یہ کارنامہ سرانجام دیا ۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک پاکستان کے پسماندہ علاقوں کے لیے ترقی کا پیامبر ثابت ہو گا۔

چنانچہ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ ہم ماضی کی غلطیاں دہرانے سے گریز کریں اور قدرت کی طرف سے عطا کردہ اس نادر موقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں۔رفیق تارڑ اپنے پیغام میں سی پیک کو گیم چینجر منصوبہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ مجھے اس امر پر بے حد خوشی ہے کہ یہ منصوبہ ہماری اقتصادیات کے لئے حیات نو کا پیش خیمہ ثابت ہورہا ہے اور پاکستان و چین کی قیادت بھارت اور امریکہ کی طرف سے اس کی مخالفت کے باوجود اسے مکمل کرنے کے لیے پرعزم ہے۔

نشست کی نظامت کے فرائض ادا کرتے ہوئے نظریہٴ پاکستان ٹرسٹ کے سیکرٹری شاہد رشید نے کہا کہ ہمیں مشاہد حسین سید کی آمد پر بے حد مسرت ہوئی ہے کیونکہ ان کا شمار ٹرسٹ کے بانی اراکین اور ہمارے رہبر محترم مجید نظامی کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا ہے۔ نشست کے اختتام پر ٹرسٹ کے وائس چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد نے سینیٹر مشاہد حسین سید کو نظریہٴ پاکستان ٹرسٹ کی یادگاری شیلڈپیش کی جبکہ مشاہد حسین سید نے پارلیمانی کمیٹی برائے سی پیک کی رپورٹ برائے سال 2015-17ء پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد کو پیش کی۔ علاوہ ازیں عوامی جمہوریہ چین کے قومی دن کی خوشی میں کیک بھی کاٹا گیا جو تمام حاضرین کو پیش کیا گیا۔