بائیوٹیکنالوجی سے پروان چڑھنے والی شدید موسمیاتی حالات ،کم پانی میں بہترپیداوار کی حامل فصلات اور ورائٹیوں کو رواج دے کر غذائی استحکام کی منزل کا حصول آسان بنایا جا سکتا ہے،ماہرین زراعت

جمعہ 13 اکتوبر 2017 16:38

فیصل آباد۔13 اکتوبر(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 13 اکتوبر2017ء) ماہرین زراعت نے کہاہے کہ20برس بعد دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی کی غذائی ضروریات پوری کرنے کا چیلنج جینیاتی تبدیلیوں کی حامل فصلات ہی پورا کرپائیں گی لہٰذا بائیوٹیکنالوجی سے پروان چڑھنے والی شدید موسمیاتی حالات اور کم پانی میں بہترپیداوار کی حامل فصلات اور ورائٹیوں کو رواج دے کر غذائی استحکام کی منزل کا حصول آسان بنایا جا سکتا ہے۔

انہوںنے کہا کہ آج ہمیں زرعی جامعات میں باصلاحیت نوجوانوں کی ایسی کھیپ تیار کرنا ہوگی جو سرکاری نوکری کے پیچھے بھاگنے کے بجائے اپنے ذہن و قلب میں پروان چڑھنے والے بزنس آئیڈیاز کو عملی شکل دیتے ہوئے اپنے روزگار کا اہتمام کر سکے۔ انہوں نے واضح کیا کہ کاروباری مہارتوں کے حامل کسان ہی ملک کے مستقبل کا تعین کریں گے کیونکہ تقسیم در تقسیم کے بعد سکڑتے ہوئے زرعی رقبوں کومنافع بخش یونٹ میں تبدیل کئے رکھنا ہی نئے زرعی گریجوایٹس کا اہم ترین ہدف ہوگا ۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ ہمیں ٹریکٹرائزیشن سے فارم میکانائزیشن کی طرف آتے ہوئے زمینوں کو زیادہ پیداوار کے قابل بنانا ہوگا تاکہ پیداواری لاگت کو کم سے کم رکھتے ہوئے کسان کو منافع میں حصہ دار بنایا جا سکے۔انہوں نے ترقی پسند کاشتکاروں اور انڈسٹری سے وابستہ افراد کے ساتھ مشاورت کے بعد تحقیقات کوکسان کی دہلیز تک پہنچانے کی ضرورت پر زور دیا۔

انہوں نے کہا کہ محققین کو زرعی ترقی میں حائل رکاوٹوں اور کسان کی بگڑتی ہوئی اقتصادی حالت کا جائزہ لیتے ہوئے اس امر کا بھی بغورجائزہ لینا ہوگا کہ مارکیٹ میں اسے فصل کی بجائی اور زرعی مداخل کی خرید میں پرائیویٹ لوگوں سے قرضہ لینے پر کس طرح کے استحصال کا سامنا ہوتا ہے تاکہ تحقیقی مواد کی روشنی میں ایک بہترین ایگری کلچر کریڈٹ پالیسی ترتیب پا سکے۔

انہوں نے واضح کیا کہ فوڈ سکیورٹی محض انسانی معدے کو بھرنے کا نام نہیں بلکہ اسے متوازن خوراک کی فراہمی یقینی بناکر ہی اس کی غذائی ضروریات پوری کرنا ہونگی۔ انہوں نے کہا کہ سائنس دانوں کوموسمیاتی تغیرات تناظر میں نچلی سطح پر ایگروایکالوجیکل زونز کی نشاندہی کرتے ہوئے موزوں ترین اور منافع بخش فصلات کی کاشت کو فروغ دینا ہوگاتاکہ غیرمنافع بخش فصلات کی کاشت پر اُٹھنے والے اربوں روپے بچائے جاسکیں۔

انہوں نے کہا کہ ماہرین نے موسمیاتی تبدیلیوں کا جائزہ لیتے ہوئے یونی گولڈ مرغیوں کی ایسی قسم متعارف کروا دی ہے جو شدید موسمی حالات میں بھی عام مرغیوں سے زیادہ انڈے اور گوشت کی حامل ہونگی۔انہوں نے ملک میں زرعی ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ملک میں 64فیصدکسان 5ایکڑ سے کم زرعی رقبہ کے حامل ہیں جبکہ ساڑھے بارہ ایکڑ سے کم رقبہ کے حامل کسانوں کی شرح 84فیصد ہے ۔

انہوں نے کہا کہ 1960ء کی دہائی میں ایگریکلچرگروتھ ریٹ 5.1فیصد تھا جو بتدریج کم ہوتے ہوئے 2.1فیصد تک پہنچ چکا ہے جبکہ ترقی پسند اورعام کاشتکار کی فی ایکڑ پیداوار میں بھی 50فیصد سے زائد خلاء کوبہترمینجمنٹ سے پر کرنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہاکہ زرعی تحقیق پر سرمایہ کاری اور زرعی قرضوں کے حجم میں خاطر خواہ اضافہ کرتے ہوئے پرائسنگ اور پروکیورمنٹ پالیسی متعارف کروانے کی بھی اشد ضرورت ہے ۔

متعلقہ عنوان :