داخلی سلامتی پر اثرانداز ہونے والے خارجی عوامل پر ازسرنو غور کر کے دانش مندانہ حکمت عملی تیار کی جائے، کشمیر، بھارت، افغانستان، ایران، مشرق وسطیٰ اور چین کی صورتحال براہ راست ہماری داخلی سلامتی کے معاملات پر اثرانداز ہوتی ہے، صحت اور روزگار کے شعبوں کو مزید فعال کرنے کی ضرورت ہے، سماج دشمن عناصر کی سرکوبی کے لئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی صلاحیتوں میں بہتری لانی ہوگی

صدر مملکت ممنون حسین کا نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں نیشنل سیکورٹی ورکشاپ کی اختتامی تقریب سے خطاب

جمعہ 13 اکتوبر 2017 15:08

داخلی سلامتی پر اثرانداز ہونے والے خارجی عوامل پر ازسرنو غور کر کے ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 13 اکتوبر2017ء) صدر مملکت ممنون حسین نے کہا ہے کہ داخلی سلامتی پر اثر انداز ہونے والے خارجی عوامل پر از سر نو غور کر کے دانش مندانہ حکمت عملی تیار کی جائے کیونکہ کشمیر، بھارت، افغانستان، ایران، مشرق وسطیٰ اور چین کی صورتحال براہ راست ہماری داخلی سلامتی کے معاملات پر اثر انداز ہوتی ہے۔

انہوں نے یہ بات جمعہ کو یہاں نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں نیشنل سکیورٹی ورکشاپ کی اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ ورکشاپ میں اراکینِ پارلیمنٹ، اعلیٰ سول و فوجی حکام اور سول سوسائٹی کے افراد شریک تھے۔ صدر مملکت نے اس موقع پر ورکشاپ کے شرکا ء میں سرٹیفکیٹ بھی تقسیم کئے۔ صدر مملکت نے ورکشاپ کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عسکریت پسندی اور دہشت گردی کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے قوم نے جان و مال اور ادارہ جاتی سطحوں پر بہت نقصانات اٹھائے ہیں لیکن اس جنگ میں ہماری کامیابی بھی غیر معمولی ہے جس کے لئے ہمارے سول و ملٹری جانبازوںکے علاوہ سیاسی اور غیر سیاسی لوگوں نے بھی بیش بہا قربانیاں دی ہیں جس پر یہ تمام افراد اور ادارے خراجِ تحسین کے مستحق ہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ ان مسائل کے حل کے لئے ضروری ہے کہ داخلہ پالیسی کے ساتھ ساتھ خارجہ پالیسی کے بعض پہلوئوں کا احتیاط سے جائزہ لے کر ان کی اصلاح کی جائے۔ صدر مملکت نے کہا کہ پاکستان میں گزشتہ تین عشروںکے دوران میں نہایت تیز رفتاری کے ساتھ تبدیلیاں رونما ہوئیں جن کے ملک کے سیاسی، سماجی اور اقتصادی معاملات پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوئے۔

یہ صورتحال وسیع پیمانے پر علمی اور عملی اقدامات کی متقاضی تھی لیکن متعلقہ حلقے ان کی نوعیت کو سمجھ کر کوئی مناسب حکمتِ عملی تیار نہ کر پائے جس کے نتیجے میں بعض عناصر گمراہی پر مبنی بیانیہ معاشرے میں پھیلانے میں کامیاب ہو گئے، یوں مذہب اور انتہا پسندی کو ایک ہی نظر سے دیکھا جانے لگا۔ انہوں نے کہا کہ ذرائع ابلاغ نے ان معاملات میں انفرادی سطح پر اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اس میں ابھی مزید گنجائش باقی ہے۔

صدر مملکت نے کہا کہ ملک کے بعض حصوں خاص طور پر بڑے شہری مراکز میں سماج دشمن عناصر نے منظم جرائم کو فروغ دیا جس سے ان شہروں سمیت ملک بھر کی سیاسی، سماجی اور اقتصادی زندگی متاثر ہوئی۔ اس طرح کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے پورے معاشرے کو مشترکہ کوششیں کرنا ہوں گی اور اگر ضروری سمجھا جائے تو قانونی ڈھانچے کو بھی تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ صدر مملکت نے کہا کہ پاکستان کی مخصوص صورتِحال میں تعلیمی نظام اور نصاب کو نہایت ٹھوس بنیادوں پر مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ صحت اور روز گار کے شعبوں کو مزید فعال کرنے کی ضرورت ہے۔ صدر مملکت نے کہا کہ سماج دشمن عناصر کی سرکوبی کے لئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی صلاحیتوں میں بہتری لانی ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ ملک و ملت کی تنظیم نو کے لئے پوری قوم اور اس کے تمام اداروں کو پوری ذہنی یکسوئی اور آمادگی کے ساتھ اجتماعی کوششیں کرنا ہوں گی کیونکہ اس طرح کے کام کسی طبقے یا مکتبہ فکر کو نظر انداز کر کے انجام نہیں دیئے جا سکتے۔

صدر مملکت نے کہا کہ گزشتہ چند دہائیوں کے دوران مختلف مواقع پر ان مسائل کے حل کے لئے اقدامات کئے گئے لیکن ہمیں جتنے بڑے اور ہمہ گیر چیلنج درپیش ہیں، اس کے مقابلے میں ان میں مزید وسعت، جامعیت اور ہمہ گیریت لانا ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے تمام سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے نیشنل ایکشن پلان تشکیل دیا جس کے تحت شدت پسندوں اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے کثیر الجہتی پالیسی ترتیب دی گئی۔

اب ضروری ہے کہ اس پلان کی کامیابی کے لئے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں۔ اس موقع پر این ڈی یو کے قائم مقام صدر میجر جنرل سمریز سالک نے بھی خطاب کیا جبکہ سینیٹر روبینہ خالد، رکن پنجاب اسمبلی شہر یار ملک اور سول سوسائٹی کے نمائندے عامر درانی نے ورکشاپ کی سفارشات سے سامعین کو آگاہ کیا۔