راہداری کو بھارتی نظریے سے نہ دیکھیں، پاکستان کا امریکا سے مطالبہ

سی پیک کسی کے خلاف سازش نہیں بلکہ معاشی منصوبہ ہے جس سے جنوبی ایشیا اور ملحقہ خطوں میں امن و استحکام اّئے گا،احسن اقبال امریکہ پاکستان کے ساتھ اس کی اہلیت کے مطابق تعلقات رکھے،کمیونزم کو شکست کی ٹرافی مغرب نے اٹھائی اور پاکستان کانٹے چن رہا ہے، وزیر داخلہ کا سیمینار سے خطاب

جمعرات 12 اکتوبر 2017 20:04

واشنگٹن(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 12 اکتوبر2017ء) وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے امریکا پر زور دیا ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کو بھارتی نظریہ سے نہ دیکھا جائے کیونکہ یہ سیکیورٹی حکمت عملی نہیں بلکہ ایک معاشی منصوبہ ہے جس سے جنوبی ایشیا اور اسے ملحقہ خطوں میں امن و استحکام اّئے گا۔افغانستان سے سوویت یونین کی پسپائی کے بعد عالمی برادری ہاتھ جھاڑ کر چلی گئی جب کہ مغربی دنیا کو کمیونزم کے خلاف ٹرافی مل گئی اور پاکستان آج تک کانٹے چن رہا ہے۔

پاکستان خوددار ملک ہے اس لیے الزام اور اعتماد ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ان خیالات کا اظہار وزیر داخلہ احسن اقبال نے اپنے دورہ امریکا کے دوران جان ہوپکنس اسکول آف ایڈوانس انٹرنیشنل اسٹڈیز میں سیمینار سے خطاب میں کیا۔

(جاری ہے)

وفاقی وزیر داخلہ نے امریکی حکام پر زور دیا کہ پاکستان کو خطے کی دیگر ریاستوں اور ان کے مسائل کے ساتھ جوڑنے کے بجائے پاکستان کے ساتھ اس کی اہلیت کے مطابق تعلقات رکھے جائیں۔

سی پیک کے حوالے سے امریکی اعتراضات پر وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ سی پیک کسی کے خلاف سازش نہیں اور نہ ہی کوئی سیکیورٹی پلان ہے بلکہ یہ معاشی ترقی کی جانب ایک منصوبہ ہے جس کی مدد سے پاکستان میں توانائی اور بنیادی ڈھانچے سمیت دیگر اہم شعبوں کے ذریعے سرمایہ کاری پاکستان آئے گی۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک کے ذریعے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری خطے میں آ رہی ہے۔

سی پیک سے امن اور علاقائی تعاون کے راستے کھلیں گے۔ انہوں نے امریکا اور یورپ کو سی پیک میں اپنے حصے کا کردار ادا کرنے کی دعوت بھی دی۔وزیر داخلہ احسن اقبال کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف سب سے زیادہ قربانیاں پاکستانی عوام نے دیں۔وزیر داخلہنے کہا کہ افغانستان میں سیکورٹی کی ناکامی پر پاکستان کو الزام دینا عوام کے خلاف جارحیت کے مترادف ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان افغانستان میں سیاسی مفاہمت کیلیے ہر اقدام کی حمایت کرتا ہے اور سیاسی مفاہمت ہی جنوبی ایشیا میں دیرپا امن و خوشحالی کی ضامن ہے، اس لیے پاکستان کو افغانستان میں سیکیورٹی ناکامیوں کا موردالزام ٹھہرانا جذبات مجروح کرنے کے مترادف ہے۔وزیرداخلہ نے کہا کہ افغانستان سے سوویت یونین کی پسپائی کے بعد عالمی برادری ہاتھ جھاڑ کر چلی گئی جب کہ مغربی دنیا کو کمیونزم کے خلاف ٹرافی مل گئی اور پاکستان آج تک کانٹے چن رہا ہے۔

افغان سرزمین کو پرامن بنانے کیلیے علاقے کے ممالک اور عالمی طاقتوں کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان خوددار ملک ہے اس لیے الزام اور اعتماد ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ پاکستان کسی دوسرے کی جنگ نہیں لڑرہا بلکہ ہم اپنے مستقبل کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ امن کے ذریعے ترقی اور خوشحالی کی جنگ ہے اور حکومت پاکستان کے اقتصادی وژن کی بنیاد خطے میں امن و استحکام کی بحالی پر ہے۔

سی پیک خطے میں ممالک کے مابین باہمی روابط کو مضبوط کرنے کیلیے مؤثر کردار ادا کرے گا جب کہ یہ منصوبہ خطے میں باہمی روابط مضبوط بنانے کا موجب بھی ہوگا۔ ادھر امریکا میں پاکستانی سفیر اعزاز احمد چوہدری کا کہنا ہے کہ پاکستانی اور امریکی حکام کے درمیان حالیہ ملاقاتوں نے دونوں ممالک کے تعلقات کو دوبارہ معمول پر لانے میں راہ ہموار کی ہے۔خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے امریکی سیکریٹری دفاع جیمز میٹس نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ سی پیک ایک متنازع علاقے سے گزر رہا ہے اور امریکا اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔امریکی سیکریٹری دفاع کے اس بیان کو اسلام آباد میں امریکا کی جانب سے بھارتی موقف کی تائید کی نظر سے دیکھا گیا۔