سینیٹر طلحہ محمود کی زیر صدارت سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے کیبنٹ سیکرٹریٹ کا اجلاس

نیپرا کے کام کے طریقہ کار، بجلی کی پیداوار و شارٹ فال، مختلف سیکٹروں کو بجلی کی سپلائی سے متعلق حکومتی پالیسی اور پبلک سروس کمیشن میں معذور افراد کیلئے کوٹے کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا

جمعرات 12 اکتوبر 2017 19:04

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 12 اکتوبر2017ء) سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے کیبنٹ سیکرٹریٹ کے اجلاس میں انکشاف کیا گیا کہ بجلی چوری، ترسیلی نقصانات اور بلوں کی عدم ادائیگی کی وجہ سے ملک کو سالانہ 125 ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے، سب سے زیادہ عدم ادائیگی اور بجلی چوری 38 فیصد سیپکو(سکھر) میں ہورہی ہے، جب تک گرڈ سٹیشن اور ٹرانسمیشن لائنوں کو بہتر نہیں کیا جائے گا، لوڈشیڈنگ کے مسائل رہیں گے، ملک کے گرڈ اسٹیشن 40 فیصد ، فیڈرز 20 سی25 فیصداوور لوڈہیں ملک میں بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت 29 ہزار میگاواٹ موجو دہے جبکہ ناقص ٹرانسمشن لائنوں، گرڈ سٹیشنوں و دیگر انفراسٹرکچرکی وجہ سے ملک کی موجودہ ضرورت 19 ہزار میگاواٹ ہونے کے باوجود بھی لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے۔

قائمہ کمیٹی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر طلحہ محمود کی صدارت میں پارلیمنٹ لاجز میں منعقد ہوا۔

(جاری ہے)

قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں نیپرا کے کام کے طریقہ کار، بجلی کی پیداوار و شارٹ فال، مختلف سیکٹروں کو بجلی کی سپلائی سے متعلق حکومتی پالیسی اور پبلک سروس کمیشن میں معذور افراد کیلئے کوٹے کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ چیئرمین نیپرا طارق سدوزئی نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ نیپرا کا قیام بجلی کی پیدا وار، ترسیل اور تقسیم کو باقاعدہ بنانے کیلئے ایکٹ کے تحت 1997ء میں ہوا۔

نیپرا کا ایک چیئرمین ہے اوراتھارٹی کے چاروں صوبوں سے ایک ایک ممبر ہے، فیصلے اتھارٹی کی اکثریت پر طے کئے جاتے ہیں، نیپرا کی ٹیم میں 99 پروفیشنلز جن میں کاسٹ اکائونٹس، الیکٹریکل انجینئرز ، قانونی ماہرین اور معاون سٹاف شامل ہے۔ نیپرا بجلی پیدا کرنے کیلئے لائسنس کا اجراء بجلی کی ترسیل اور تقسیم کی ذمہ داریوں کے ساتھ تقسیم میں سرمایہ کاری کے طریقہ کار اور معیار واضح کرتا ہے۔

تقسیم کار کمپنیوں کے حساب کتاب کی غرض سے ایک مساوی نظام تشکیل کرتا ہے اور ایکٹ کی خلاف ورزی کی صورت میں جرمانے کرتا ہے، نیپرا مختلف طریقوں سے پیدا ہونے والی بجلی کے ٹیرف بھی مقرر کرتا ہے، ان کمپنیوں کو نیپرا لائسنس کا اجراء کرتا ہے جو بجلی پیدا کرکے فروخت کرتے ہیں اب تک 289 کمپنیوں کو لائسنس کا اجراء کیا جا چکا ہے ۔ ہائوسنگ کالونیوں کو اجازت دی جارہی ہے کہ وہ اپنی بجلی صارفین کو پہنچا سکیں اور گھروں میں سولر کے ذریعے بجلی تیار کر کے اضافی بجلی واپڈا کو فروخت کر سکیں 150 لوگوں نے لائسنس حاصل کر رکھا ہے جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ بہتر یہی ہے کہ اس حوالے سے لوگوں میں نہ صرف شعور اجاگر کیاجائے بلکہ ان کی دلچسپی میں بھی اضافہ کیا جائے ۔

چیئرمین نیپرا نے کمیٹی کو بتایا کہ ٹرانسمشن لائن میں بجلی کے ترسیلی نقصانات (Losses)کی وجہ سے این ٹی ڈی سی کو جرمانے بھی کئے جاتے ہیں ۔ گرڈ اسٹیشن اور ٹرانسمیشن لائن اوور لوڈڈ ہیں ، پہلے تین لاکھ تک جرمانہ کیا جا سکتا تھا اب دس کروڑ تک جرمانہ کر سکتے ہیں ۔ جس پر چیئرمین و اراکین قائمہ کمیٹی نے کہا کہ خلاف ورزی کرنے والے افسران کو بھی سزا دی جائے نہ کہ صرف کمپنیوںکو جرمانے کئے جائیں۔

قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ ملک میں دس بجلی پیدا وتقسیم کار کمپنیاں خدمات سرانجام دے رہی ہیں ،24 ملین بجلی صارفین ہیں جس میں85 فیصد صارفین گھریلو ہیں جو 50 فیصد بجلی استعمال کرتے ہیں ، 11 فیصد کمرشل ،28 فیصد صنعت اور زراعت میں ایک فیصد بجلی استعمال ہوتی ہے ۔ ہر تقسیم کار کمپنی کا ٹیرف علیحدہ نکالا جاتا ہے حکومت سبسڈی یا سرچارج لگاتی ہے۔

2014-15 میں پورے ملک کیلئے ٹیرف 12.33 مقرر کیا گیا ، حکومت نے سبسڈی فراہم کر کے 11.45 روپے نوٹیفکیشن کیا، کم یونٹ استعمال کرنے والوں کو سبسڈ ی ملتی 70 فیصد لوگ بجلی کی300 سے کم یونٹ استعمال کرتے ہیں، صنعت میں استعمال ہونے والی بجلی میں سرچارج وصول کیا جاتا ہے۔ ریگولیٹر ایک حد تک لائن لاسسز کی اجازت دیتا ہے۔ اس سے زیادہ بجلی چوری میں شمار ہوتی ہے۔

آئیسکو میں8.6 فیصد لائن لاسسز کی اجازت ہے مگر 9.1 فیصد لائن لاسز ہو رہے ہیں۔ ہیسکو 22.5 فیصد جبکہ 26 فیصد لائن لاسز ہو رہے ہیں ۔ پیسکو 31 فیصد جبکہ 33 فیصد لائن لاسز، میپکو 15 فیصد مگر16.45 ، کوئٹہ 17.5 فیصد جبکہ23.9 فیصد لائن لاسز ہو رہے ہیں اور سب سے زیادہ سیپکو 29 فیصد اجازت ہے جو حقیقت میں38 فیصد لائن لاسز سامنے آرہے ہیں۔ اراکین کمیٹی نے کہا کہ 29 فیصد لائن لاسز بھی بہت زیادہ ہیں جس پر بتایا گیا کہ حالات کے پیش نظر اتنی اجازت دی گئی ہے ۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ صوبہ خیبر پختونخوا میں پانچ نئے گرڈ سٹیشن قائم کئے جائیں گے این ٹی ڈی سی پر پچھلے تین سالوں سے زور دیا جارہا ہے ، جب تک گرڈ اسٹیشن اور ٹرانسمیشن لائن کو بہتر نہیں کیا جائے گا لوڈ شیڈنگ کے مسائل رہیں گے البتہ حکومت اس حوالے سے اقدامات اٹھا رہی ہے ۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں یہ انکشاف بھی کیا گیا کہ ملک میں کئی مقامات پر فکس بل بھی وصول کیے جارہے ہیں ایک اے سی استعمال کرنے پر ماہانہ دو ہزار وصو ل کئے جاتے ہیں ۔

قائمہ کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں ٹرانسمشن لائنز کی اپ گریڈیشن کے حوالے سے متعلقہ اداروں کو بھی طلب کر لیا ۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے حوالے سے معذور افراد کیلئے 2 فیصد کوٹہ کیلئے عوامی عرضداشت کا بھی تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ سیکرٹری ایف پی ایس سی نے کمیٹی کو بتایا کہ ایک فیصد پہلے سے مقرر ہے گریڈ1 سی15 تک ۔حکومت نے یہ کوٹہ 2 فیصد کر دیا ہے گریڈ 16 سے اوپر تقرری میرٹ پر کی جاتی ہے، معذور افراد میرٹ پر کہیں بھی تقرر ہو سکتا ہے جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ معذور افراد خصوصی توجہ کے حقدار ہوتے، کوئی ایسا طریقہ کار اختیار کیا جائے اور تجاویز لائی جائیں کہ ان کی زیادہ سے حوصلہ افزائی کی جا سکے یا اضافی نمبر دیئے جا سکے تاکہ وہ بھی معاشرے کے عام فرد کی طرح بہتر زندگی گزار سکے ۔

کمیٹی نے اس حوالے سے ایف پی ایس سی سے تجاویز طلب کر لیں ۔ قائمہ کمیٹی برائے کیبنٹ سیکرٹریٹ نے اسلام آباد میں ہائوسنگ سوسائٹیوں ، سی ڈی اے کی طرف سے الاٹ کئے گئے پلاٹوں، دو سے زیادہ بیسمنٹ بنانے کی اجازت دینے اور پلاٹوں کیلئے ڈویلپمنٹ اخراجات کے حوالے سے شکایات کا سخت نوٹس لیتے ہوئے آئندہ اجلاس میں آئی جی اسلام آباد، چیئرمین سی ڈی اے ، اسلام آباد انتظامیہ کو طلب کرتے ہوئے سی ڈی اے سے پلاٹوں کیلئے ڈویلپمنٹ اخراجات کا دس سالہ ریکارڈ، نیلام کئے گئے پلاٹوں کی ڈویلپمنٹ، دو سے زیادہ بیسمنٹ بنانے والی عمارتوں کی تفصیلات، عمارتوں کیلئے پاس ہونے والے نقشے کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے سی ڈی اے سے عوام کو درپیش مسائل کے حل کیلئے تجاویز بھی طلب کر لیں۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ پاکستان کا دارالحکومت دنیا کے خوبصورت دارالحکومتوں میں سے ایک ہے مگر اس کی خوبصورتی کو ناقص منصوبہ بندی و حکمت عملی کی بدولت تباہ کیا جارہا ہے جعلی ہائوسنگ سوسائٹیوں ، غیر قانونی تعمیر ات نے خوبصورتی تباہ کر دی ہے ۔ سی ڈی اے کے عملہ کی ناقص منصوبہ بندی کی بدولت سیکٹر ڈی 12 اب تک تعمیر نہ ہو سکا او رمارگلہ روڈ جس کی وجہ سے ایکسپریس ہائی وے کا آدھا رش کم ہو سکتا ہے ناقص منصوبہ بندی کی نظر ہوگیا ۔

قائمہ کمیٹی نے اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا کہ سول ایوی ایشن اتھارٹی نے پرائیوٹ ایئر لائن کے جہاز منگوائے مگر معائنہ کرنے والے ماہرین نہ ہونے کی وجہ سے اپنی پسند کے افسران کو ان کی فیملیوں کے ساتھ بیرون ملک ٹریننگ کیلئے بھیجا ، ٹی اے ڈی اے کی مد میں اربوں روپے خر چ کیے ۔قائمہ کمیٹی نے اس حوالے سے سول ایوی ایشن سے تفصیلات بھی طلب کر لیں ۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹرز شاہی سید ، نجمہ حمید اور حاجی سیف اللہ خان بنگش کے علاوہ چیئرمین نیپرا ، ایڈیشنل سیکرٹری کیڈ ، سیکرٹری ایف پی ایس سی و دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی ۔

متعلقہ عنوان :