پاکستان کا ایک ایسا گاؤں ، جہاں دہشتگردی کا شکار بیوائیں اور یتیم بچے مقیم ہیں

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین جمعرات 12 اکتوبر 2017 12:30

پاکستان کا ایک ایسا گاؤں ، جہاں دہشتگردی کا شکار بیوائیں اور یتیم بچے ..
(اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 12 اکتوبر 2017ء) : پاکستان میں ایک ایسا گاؤں بھی موجود ہے جہاں رہنے والے افراد میں زیادہ تعداد بیواؤں اور یتیم بچوں کی ہے۔ یہ ایک ایسا گاؤں ہے جہاں دہشت گردی کا شکار پانچ سو گھرانے رہائش پذیر ہیں اور ان 5 سو گھرانوں میں 80 کے لگ بھگ ایسے خاندان بھی ہیں جن کی سربراہ بیوہ عورتیں ہیں جبکہ ان کے افراد یتیم بچے ہیں۔

خیبر پختونخوا کے یہ گاؤں جنوبی ضلع لکی مروت کے دیہات شاہ حسن خیل میں واقع ہے جہاں آج سے ساڑھے 7 سال قبل خود کش دھماکے میں ایک سو دس افراد ہلاک اور دو سو سے زائد افراد زخمی ہو گئے تھے۔ ان 70 سے 80 گھرانوں کے کفیل اس دھماکے میں ہلاک ہو گئے جس کے بعد ان کے بیوی بچوں کی کفالت ایک مشکل مرحلہ تھا۔ قابل افسوس بات یہ ہے کہ دہشتگردی کا شکار ہوئے ان گھرانوں اور بالخصوص یہاں رہائش پذیر بیواؤں کا کوئی مناسب روزگار یا ذریعہ معاش نہیں ہے، گھروں کی چار دیواریوں میں بیٹھیں یہ بیوہ خواتین ایک وقت کی روٹی کے لیے سخت جدو جہد کرتی ہیں۔

(جاری ہے)

سابق دور حکومت میں ہلاک ہونے والے افراد کے لواحقین کو تین، تین لاکھ اور زخمیوں کو ایک، ایک لاکھ روپے دیے گئے تھے جو چند ماہ میں ہی خرچ ہو گئے۔ ایک بیوہ خاتون کبل بی بی کے شوہر اور ان کے دو بیٹے اس دھماکے میں ہلاک ہو گئے تھے اب ان کے گھر میں تین بیوائیں بیٹھی ہیں۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق کبل بی بی کے آٹھ بیٹے تھے جن میں سے اب چھ بیٹے رہ گئے ہیں۔

ان کے بڑے بیٹے نے میٹرک کیا ہوا ہے اور اب وہ چارپائیاں بُننے کا کام کرتا ہے۔ کبل بی بی پہاڑوں سے خود جھاڑیاں لاتی ہیں اور ان سے بان یا رسی بنانے کا مشکل کام سر انجام دیتی ہیں، جس کے بدلے میں مقامی دوکاندار انہیں ایک وقت کھانے کے لیے کبھی پیاز تو کبھی ٹماٹر دے دیتے ہیں۔ اس رسی یا بان کی قیمت دس سے 20 روپے تک ہی ہوتی ہے۔ کبل بی بی نے بتایا کہ ان کے شوہر مزدوری کرتے تھے بڑے بیٹے بھی روزانہ کام کرکے کچھ کما کر لے آتے تھے لیکن اب تو فاقوں کی صورتحال ہے۔

کبھی پیاز یا ٹماٹر مل جاتے ہیں اور کبھی کچھ کھائے بغیر ہی سو جاتے ہیں بل بی بی کا کہنا ہے: ’بیوہ ہو گئی ہوں، اب دل میں طاقت نہیں رہی۔ کوئی کام نہیں کر سکتی، ہاتھ جواب دے چکے ہیں، اپنی روٹی اور چائے نہیں لے سکتی۔ زندگی کی سختیاں ہیں جسے بسر کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت ان کے بچوں کو اگر روزگار فراہم کر دے تو ان کے حالات بہتر ہو سکتے ہیں۔

کبل بی بی نے بتایا کہ ان کے گاؤں میں بڑی تعداد میں بیوائیں ہیں اور سب کا یہی حال ہے۔ چارپائی بننے کے لیے استعمال کی جانے والی رسی یا بان جنگلی جھاڑیوں سے بنائی جاتی ہے اور یہ انتہائی مشکل کام ہے۔ یہ رسی بنا بنا کر کبل بی بی کے ہاتھ پتھر کی طرح سخت ہو چکے ہیں اور یہی حال دیگر بیواؤں کا بھی ہے۔ اس گاؤں میں دھماکے کے اثرات اب بھی نمایاں ہیں۔

بیشتر زخمی اب معذور ہیں تو ہلاک ہونے والے افراد کے بچے یتیمی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ان خواتین نے دوبارہ شادی نہیں کی اور حکومت نے دہشت گردی کی شکار ان خواتین کی فلاح کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے شاہ حسن خیل کے مرکزی چوک میں بزرگ اور علاقے کے لوگ موجود تھے۔ ویلج ناظم عبدالمالک نے بتایا کہ علاقے کے بزرگ اس بات پر پریشان ہیں کہ یہاں ہر گھر اور ہر گلی میں دھماکے کے متاثرین موجود ہیں لیکن حکومت کی جانب سے عدم توجہی سے حالات مزید خراب ہو رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ بیوہ خواتین ذہنی دباؤ کا شکار ہیں اکثر نفسیاتی مریض بن چکی ہیں۔ ایک وقت کا کھانا کسی کو نصیب ہوتا ہے تو اسے خوش قسمت سمجھا جاتا ہے وگرنہ پڑوسیوں یا کسی سے مانگ کر بچوں کا پیٹ بھرا جاتا ہے۔ ساڑھے سات سال پہلے ہوئے اس دھماکے کا نشانہ کون تھا یہ واضح نہیں ہے لیکن اس گاؤں کے میدان اور کھیت ویران جبکہ غربت اور افلاس نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔

متعلقہ عنوان :