لاپتہ افراد سے متعلق قائم کمیشن کی کارکردگی کا احتساب ہونا چاہئے،سینیٹر فرحت اللہ بابر

یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ جن قواعدوضوابط اور شرائط کے تحت مذکورہ کمیشن تشکیل دیا گیا تھا کیا وہ مقصد حاصل ہوسکا ہی کیا مذکورہ کمیشن نے جس متعلقہ سینیٹ کمیٹی کو اپنی کارکردگی سے آگاہ کرنا تھا کیا وہ یہ بنیادی مقصد بھی حاصل ہو پایا ہے یا نہیں پیپلزپارٹی کے رہنما‘ سینیٹر فرحت اللہ بابر کی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے اجلاس میں تجویز دی

بدھ 11 اکتوبر 2017 18:07

لاپتہ افراد سے متعلق قائم کمیشن کی کارکردگی کا احتساب ہونا چاہئے،سینیٹر ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 11 اکتوبر2017ء) پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما‘ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے تجویز دی ہے کہ ’’لاپتہ افراد سے متعلق قائم کمیشن کی کارکردگی کا احتساب ہونا چاہئے اور یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ جن قواعدوضوابط اور شرائط کے تحت مذکورہ کمیشن تشکیل دیا گیا تھا کیا وہ مقصد حاصل ہوسکا ہی کیا مذکورہ کمیشن نے جس متعلقہ سینیٹ کمیٹی کو اپنی کارکردگی سے آگاہ کرنا تھا کیا وہ یہ بنیادی مقصد بھی حاصل ہو پایا ہے یا نہیں۔

یہ مطالبات سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے طلب کردہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پیش کی گئیں جس میں لاپتہ افراد سے متعلق قائم کردہ کمیشن کے قیام سے اب تک ’چھ سالہ کارکردگی‘ کا جائزہ لیا گیا۔ میٹنگ کی صدارت سینیٹر نسرین جلیل نے کی جبکہ شرکاء میں سینیٹرز ناصر محمد خان‘ سحر کامران‘ مفتی عبدالستار‘ محسن لغاری اور فرحت اللہ بابر شامل تھے۔

(جاری ہے)

قائمہ کمیٹی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ ’’لاپتہ افراد سے متعلق تفتیش و تحقیقات کرنے والے کمیشن کے دو نہایت ہی کلیدی اور بنیادی کام اس بات کا تعین کرنا طے تھا کہ ’’لاپتہ افراد کی گمشدگی کے لئے انفرادی یا سرکاری اداروں کی سطح پر کون ذمہ دار ہیں اور دوسرا اِن ذمہ داروں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا آغاز کیا جائے۔

‘‘ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے اس امر پر تشویش کا اظہار کیا کہ صرف پاکستانی شہریت کے حامل ہی نہیں بلکہ غیرملکی بھی لاپتہ افراد میں شامل ہیں جیسا کہ حال ہی میں ترک شہریت رکھنے والے پراسرار انداز میں لاپتہ ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اِن واقعات میں اضافے کی وجہ یہ ہے کہ ہم اب تک ذمہ داروں کا تعین نہیں کر پائے ہیں اور نہ ہی ذمہ داروں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جا سکی ہے جبکہ ہمیں جن چند واقعات میں محرکات اور اسباب کا علم بھی ہوا کہ اٴْن افراد اور اداروں کے خلاف قانونی کاروائی نہیں ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ مذکورہ کمیشن وفاقی حکومت کی جانب سے تشکیل دیا گیا اور یہ جوڈیشل کمیشن نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ مذکورہ کمیشن کی کارکردگی کا احتساب اور جائزہ وفاقی حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے جبکہ پارلیمینٹ کا کام ہے کہ وہ مذکورہ کمیشن کی کارکردگی پر نظر رکھے۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے مارچ 2010ئ میں پیش ہونے والی کمیشن کی پہلی رپورٹ ’جاری‘ کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ’وزارت داخلہ‘ کے حکم سے مارچ دوہزار دس میں جو رپورٹ مکمل کی گئی اٴْس سے متعلق عوام کو جاننے کا پورا حق حاصل ہے۔

انہوں نے کہا کہ مذکورہ رپورٹ میں لاپتہ افراد کے عزیزواقارب کے بیانات درج ہیں جن کی روشنی میں نتیجے تک پہنچنا قطعی دشوار نہیں ہوگا۔‘‘ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے اِس اًمر پر تعجب کا اظہار کیا کہ مذکورہ کمیشن نے گذشتہ چھ برس کے دوران کم وبیش دو ہزار لاپتہ افراد کا سراغ لگایا لیکن اِن میں سے کسی ایک کا بیان بھی ریکارڈ کا حصہ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ جن لاپتہ افراد کا سراغ لگایا گیا اٴْن میں سے بیشتر کی لاشیں ملی ہیں تو کیا مذکورہ کمیشن اِن ماورائے عدالت ہونے والے قتل کی وارداتوں پر تفتیش کی یا اِس میں جو افراد یا ادارے ملوث تھے اٴْن کے خلاف قانونی کاروائی کی گئی انہوں نے یہ بات زور دے کر کہی کہ ’لاپتہ افراد‘ کا سراغ لگانے کے لئے قائم کمیشن کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی عمارت یا مقام کی تلاشی لے سکتا ہے لیکن کیا اِس اختیار کا استعمال کرتے ہوئے اٴْن اداروں کے دفاتر اور متعلقہ دفاتر کی تلاشی لی گئی تاکہ شواہد اکٹھا کئے جا سکیں لیکن اگر کمیشن ایسا اب تک نہیں کرپایا ہے تو پھر ہمیں اٴْن وجوہات کو دیکھنا چاہئے جن کی وجہ سے مذکورہ کمیشن خود کو بے بس تصور کر رہا ہے تاکہ اٴْسے حسب ضرورت اور خاطرخواہ فعال کرنے کے لئے مزید اختیارات تفویض کئے جا سکیں۔

فرحت اللہ بابر نے ’لاپتہ افراد‘ سے متعلق ’پہلی رپورٹ‘ منظرعام پر لانے کا مطالبہ دہراتے ہوئے یہ بھی تجویز کیا کہ جن لگ بھگ دو ہزار پاکستانیوں کے بارے میں معلوم کر لیا گیا ہے اٴْن کے بارے میں بھی تحقیقات ہونی چاہیئ ں اور اِن تحقیقات کا تبادلہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق سے ’’تین ماہ کے عرصے میں کیا جانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمینٹ کو اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآئ ہونے کی ضرورت ہے کہ وہ لاپتہ افراد کی بلاتاخیر بازیابی ممکن بنانے کے حوالے سے تفتیشی عمل کو تیزرفتار بنائے اور ایسا کرنے کے ذمہ داروں کے خلاف قانونی کاروائی یقینی بنائی جائے۔

انہوں نے لاپتہ اًفراد کو مالی معاونت (زر تلافی) دینے کا بھی مطالبہ کیا۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ’اِنسانی حقوق‘ نے چیئرمین سے مطالبہ کیا کہ وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور بشمول خفیہ اداروں کی جانب سے قائم نظربندی کے مراکز (قیدخانوں) کے بارے میں بھی معلومات (ڈیٹا) اکٹھا کریں اور لاپتہ افراد کو حبس بیجا میں رکھنے والوں کے خلاف قانونی کاروائی کرتے ہوئے مقدمات دائر کئے جائیں۔

متعلقہ عنوان :