یہودی آبادکاروں کے لیے 4 ہزار نئے مکانوں کا منصوبہ آگے بڑھانے کا اعلان

منصوبے کے تحت مغربی کنارے کے شہر الخلیل میں بھی نئے مکانات تعمیر کیے جائیں گے،اسرائیلی عہدیدارکی گفتگو

بدھ 11 اکتوبر 2017 12:14

مقبوضہ بیت المقدس (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 11 اکتوبر2017ء) اسرائیل نے دریائے اردن کے مقبوضہ مغربی کنارے میں یہودی آبادکاروں کے لیے قریباً چار ہزار نئے مکانوں کی تعمیر کے منصوبے کو آگے بڑھانے کا اعلان کیا ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق اسرائیل کے ایک عہدہ دار نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس منصوبے کے تحت مغربی کنارے کے شہر الخلیل میں بھی نئے مکانات تعمیر کیے جائیں گے اور یہودی آباد کاروں کے لیے مختلف مراحل میں 3736 نئے مکانات کی تعمیر کی منظوری دی جائے گی۔

اس عہدہ دار نے یہ نہیں بتایا کہ یہ منصوبہ کتنے مراحل میں پایہ تکمیل کو پہنچے گا اور اس پر کب عمل درآمد کا آغاز کیا جائے گا۔البتہ اس کا کہنا تھا کہ اس منصوبے کے تحت الخلیل اور رام اللہ کے نزدیک واقع یہودی بستیوں میجرون اور بیت ایل سمیت پورے غرب اردن میں مکانات تعمیر کیے جائیں گے۔

(جاری ہے)

اس کے بہ قول 2017ء کے دوران میں قریباً 12000 نئے مکانات کی منصوبہ بندی اور تعمیرات کی مختلف مراحل میں منظوری دی جائے گی۔

یہ تعداد 2016ء کے مقابلے میں چار گنا زیادہ ہے۔واضح رہے کہ سابق امریکی صدر براک اوباما اپنے دور حکومت میں مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں یہود ی آبادکاروں کے لیے تعمیرات پر اسرائیل کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں لیکن ان کے جانشین صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اس ضمن میں اسرائیل کو کسی قسم کی تنقید کا سامنا نہیں ہے۔اگر الخلیل ( ہیبرون) میں نئے مکانات تعمیر کرنے کی منظوری دی جاتی ہے تو غربِ اردن کے اس جنوبی شہر میں یہ 2002ء کے بعد پہلا تعمیراتی منصوبہ ہوگا ۔

الخلیل میں اس وقت دو لاکھ کے لگ بھگ فلسطینی آباد ہیں اور شہر کے قلب میں 800 یہودی آبادکاروں کو لابسایا گیا ہے۔ان کی قلعہ نما بستیوں کے تحفظ کے لیے اسرائیلی فوج کی بھاری نفری تعینات ہوتی ہے۔اسرائیل نے 1992ء کے بعد اس سال کے دوران میں اب تک یہودی آبادکاروں کے لیے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں مکانوں کی تعمیر کے بڑے منصوبوں پر کام شروع کیے ہین جبکہ اس کو عالمی برادری کی جانب سے دباؤ کا بھی سامنا ہے اور اس نے متعدد مرتبہ خبردار کیا ہے کہ اسرائیل کے یہودی آباد کاری کے منصوبے سے تنازع کے دو ریاستی حل کے امکانات معدوم ہوجائیں گے۔

اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کی مخلوط حکومت کو یہودی آبادکاروں کی جانب سے نئیمکانوں کی تعمیر کے منصوبے شروع کرنے کے لیے دباؤ کا سامنا ہے جبکہ ان پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا بھی دباؤ ہے اور وہ ان سے فلسطینیوں کے ساتھ مذاکرات کی بحالی کے لیے یہودی آباد کاری کے منصوبوں کو موخر کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔یاد رہے کہ اسرائیل نے 1967ء کی جنگ میں بیت المقدس ،غرب اردن اور غزہ کی پٹی پر قبضہ کر لیا تھا۔

اس نے بعد میں بیت المقدس کو اپنی ریاست میں ضم کر لیا تھا مگر اس اقدام کو امریکا سمیت عالمی برادری تسلیم نہیں کرتی ہے اور اسرائیلی اقدام کو عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیتی ہے۔اسرائیل تورات اور زبور کے حوالوں سے بیت المقدس کو یہودیوں کے لیے خاص شہر قرار دیتا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ یہودیوں کو اس شہر میں کہیں بھی بسیرا کرنے کی اجازت ہے۔وہ یروشلم کو اپنا ابدی دارالحکومت بھی قرار دیتا ہے جبکہ فلسطینی اس مقدس شہر کو اپنی مستقبل میں قائم ہونے والی ریاست کا دارالحکومت بنانا چاہتے ہیں۔

متعلقہ عنوان :