راولپنڈی بینچ نے بے نظیر قتل کیس میں سزا یافتہ سابق ڈی آئی جی سعود عزیز اور ایس پی خرم شہزاد کی ضمانتیں منظور کرلیں

مذکورہ پولیس افسران کو ملک کی دو مرتبہ وزیر اعظم رہنے والی عظیم سیاسی راہنماء کے قتل کی سازش میں ملوث ہونے پر سزائے موت دی جائے ،ْ لطیف کھوسہ

جمعرات 5 اکتوبر 2017 23:47

راولپنڈی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 05 اکتوبر2017ء) لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ نے بے نظیر قتل کیس میں سزا یافتہ سابق ڈی آئی جی سعود عزیز اور سابق ایس پی خرم شہزادکی ضمانتیں منظورکر لیں ۔انسداد دہشت گردی راولپنڈی کی خصوصی عدالت سے سزاء پانے والے دونوں پولیس افسران نے اپنے وکلاء کے ذریعے لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ میں ضمانت کی درخواستیں دائر کر رکھی تھیں جبکہ پیپلز پارٹی نے گذشتہ سماعت پر کیس میں فریق بننے کی درخواست دی تھی جسے منظور کر لیا گیاتھا ۔

جمعرات کو سماعت کے موقع پر پولیس افسران کے وکیل غنیم عبیر نے دلائل دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ خرم شہزاد پر جائے وقوعہ دھونے کا الزام ہے جبکہ ایس پی خرم نے جائے حادثہ سے تمام شواہد جمع کئے جس کے بعد اسے دھویا گیا۔

(جاری ہے)

باکس سیکورٹی کی ذمہ داری ایلیٹ انسپکٹر عظمت ڈوگر کی تھی جس سے تفتیش نہیں کی گئی ،ْوکیل نے کہاکہ سی پی او سعود عزیز نے بھی اپنے فرائض کماحقہ ادا کیے اور کسی بھی طرح اس سازش کا حصہ نہیں رہے لہذا ان کی درخواست ضمانت منظور کی جائے اس موقع پر پاکستان پیلز پارٹی کی جانب سے سردار لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ بے نظیر بھٹو کے علاوہ سانحہ لیاقت باغ کے شہداء کی آٹوپسی کی گئی،سازش کے الزام میں گرفتار چاروں ملزمان کو عدالت نے بری کیا،اقوام متحدہ تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ میں بھی تحریر ہے کہ کرائم سین اگر دو دن بعد دھویا جاتا تو شاید کچھ مزید شواہد مل جاتے،انہوںنے کہاکہ پولیس افسران کو محض شک کی بناء پر سزا دی گئی اور دیگر دفعات کے تحت انہیں سزا ء نہیں دی گئی ۔

سردار لطیف کھوسہ نے کہاکہ مذکورہ پولیس افسران کو ملک کی دو مرتبہ وزیر اعظم رہنے والی عظیم سیاسی راہنماء کے قتل کی سازش میں ملوث ہونے پر سزائے موت دی جائے ۔سردار لطیف کھوسہ نے عدالت سے مطالبہ کیاکہ پولیس افسران کو 302,120Bاور 7ATA کے تحت سزائیں سنائی جائیں اور ان کی ضمانتیں کسی صورت منظور نہ کی جائیں ۔فاضل عدالت نے تقریباً پونے دوگھنٹے تک جاری رہنے والے دو طرفہ دلائل سننے کے بعد ضمانتیں منظور کر تے ہوئے انہیں دو دو لاکھ روپے کے مچلکے داخل کرانے کی ہدایت کی۔