جاوید چودھری نے اپنے کالم میں نواز شریف ، مولانا طارق جمیل اور ججز کی ملاقات کا احوال بیان کر دیا

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین ہفتہ 30 ستمبر 2017 12:15

جاوید چودھری نے اپنے کالم میں نواز شریف ، مولانا طارق جمیل اور ججز کی ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 30 ستمبر 2017) : پاکستان کے معروف کالم نگار جاوید چودھری نے اپنے کالم میں معروف مذہبی اسکالر مولانا طارق جمیل، سابق وزیر اعظم نواز شریف اور جج صاحبان کی ایک ملاقات کا احوال بیان کر دیا۔ انہوں نے اپنے کالم میں لکھا کہ مجھے کل نعیم بٹ کا آڈیو پیغام ملا‘ یہ پیغام گزشتہ کالم ”خدا کےلئے“ کا رد عمل تھا‘ بٹ صاحب نے بتایا ‘میں اور مولانا طارق جمیل ایک بار میاں صاحب سے ملاقات کےلئے گئے‘ مولانا نے میاں صاحب سے فرمایا‘ ہمارے ملک میں جب تک انصاف نہیں ہو گا ہم ترقی نہیں کر سکیں گے‘ آپ کسی نہ کسی طرح ملک میں انصاف قائم کر دیں‘ میاں صاحب نے جواب دیا ”یہ کام میں بھی کرنا چاہتا ہوں لیکن میں کیسے کروں‘ مجھے یہ سمجھ نہیں آ رہی‘ آپ کے پاس اگر کوئی ٹھوس لائحہ عمل ہے تو آپ دے دیں‘ میں اس پر کام شروع کر دوں گا“ مولانا نے فرمایا ”ہمارے پاس بے شمار پڑھے لکھے‘ ایماندار اور نیک جج صاحبان ہیں‘یہ لوگ ریٹائرڈ ہیں‘ آپ ہمیں وقت دیں‘ ہم انہیں اکٹھا کرتے ہیں اور یہ آپ کو جسٹس سسٹم امپروو کرنے کا طریقہ بتا دیں گے“ میاں صاحب راضی ہو گئے‘ وقت طے ہو گیا‘ مولانا طارق جمیل نے جج اکٹھے کئے اورمیٹنگ شروع ہو گئی‘ میاں صاحب نے اپنا سٹاف بھی بلوا لیا‘ جج صاحبان دو گھنٹے بولتے رہے اور میاں نواز شریف دو گھنٹے سنتے رہے یہاں تک کہ آخر میں جج صاحبان نے متفقہ طور پر کہا ”میاں صاحب یہ سسٹم ٹھیک نہیں ہو سکتا ‘آپ یہ خواب دیکھنابند کر دیں“ اور یوں وہ دو گھنٹے کی میٹنگ بھی ضائع ہو گئی۔

(جاری ہے)

نعیم بٹ صاحب کا کہنا تھا” میاں نواز شریف واقعی ملک کا جسٹس سسٹم ٹھیک کرنا چاہتے ہیں لیکن یہ سسٹم کیسے ٹھیک ہو سکتا ہے‘ جج صاحبان بھی یہاں پہنچ کر ہاتھ کھڑے کر دیتے ہیں، آپ کے پاس اگر کوئی تجویز ہے تو آپ دے دیں‘ میں آپ کو گارنٹی دیتا ہوں میں حکومت کو راضی کر لوں گا“ میں نے نعیم بٹ کی گفتگو کے بعد سوچنا شروع کیا تو سچی بات ہے مجھے محسوس ہوا میرے پاس بھی کوئی ٹھوس تجویز موجود نہیں‘ مجھے بھی اگر کہا جائے آپ دو چار تجاویز دے دیں تو میں بھی بے بسی سے دائیں بائیں دیکھنے لگوں گا لیکن میری نالائقی کا ہرگز ہرگز یہ مطلب نہیں یہ مسئلہ سرے سے حل ہی نہیں ہو سکتا ۔