عوامی ووٹ کے تقدس کیلئے بڑامقدمہ لڑنے کافیصلہ کرلیا،فتح پاکستان کی ہوگی،نوازشریف

وکلائ کنونشن میں 12سوال اٹھائے ایک سوال کاجواب نہیں ملا،لوگوں کوبتاتودیتے کہ پاناما کیس میں کچھ نہیں ملااقامہ پرسزادی جارہی ہے، سابق وزیراعظم اہلیہ کی بیماری کے باعث ہنگامی طورپرلندن جاناپڑا،ماضی گواہ ہے کہ حالات کی سنگینی کاسامناپہلے بھی کیا الہ پرانے کینسر کا علاج تشخیص کرنے کا وقت آ گیا ہے ورنہ مجھے ڈر ہے کہ کہیں ملک کسی بڑے سانحہ کا شکار نہ ہو جائے، پریس کانفرنس

منگل 26 ستمبر 2017 18:32

عوامی ووٹ کے تقدس کیلئے بڑامقدمہ لڑنے کافیصلہ کرلیا،فتح پاکستان کی ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 26 ستمبر2017ء) سابق وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ عوامی ووٹ کے تقدس کیلئے بڑامقدمہ لڑنے کافیصلہ کرلیا،فتح پاکستان کی ہوگی،وکلائ کنونشن میں 12سوال اٹھائے ایک سوال کاجواب نہیں ملا،لوگوں کوبتاتودیتے کہ پاناما کیس میں کچھ نہیں ملااقامہ پرسزادی جارہی ہے،اہلیہ کی بیماری کے باعث ہنگامی طورپرلندن جاناپڑا،ماضی گواہ ہے کہ حالات کی سنگینی کاسامناپہلے بھی کیا، 70 سالہ پرانے کینسر کا علاج تشخیص کرنے کا وقت آ گیا ہے ورنہ مجھے ڈر ہے کہ کہیں ملک کسی بڑے سانحہ کا شکار نہ ہو جائے،منگل کے روز سابق وزیراعظم نوازشریف نے پنجاب ہاؤس میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں صبح عدالتی واقعے پر افسوس ہوا ہے اور اس کی ذمہ داری طلال چوہدری کو دی ہے کہ وہ اس معاملے کو ذاتی طور پر دیکھیں تاکہ عدلیہ کے ساتھ ملکر کوئی ایسا لائحہ عمل بنائے کہ ایسا واقعہ دوبارہ نہ ہوسکے کیونکہ میں خود آزادی اظہار رائے پر یقین رکھتا ہوں۔

(جاری ہے)

نوازشریف نے کہا کہ اہلیہ کی بیماری کی وجہ سے لندن گیا تھا جس کی تفصیل پوری قوم جانتی ہے اور اس حوالے سے دعاؤں پر بھی قوم کا شکرگزار ہوں۔انہوں نے کہا کہ یہ بات میرے وہم وگمان میں بھی نہیں تھی کہ ضرورت سے زائد ایک دن بھی باہر رہوں اور قریبی رفقاء اس حوالے سے جانتے تھے کہ میرے جاتے وقت روانگی کے بعد ہی میری واپسی بھی کنفرم ہوگئی تھی لیکن مخالفین نے جھوٹے الزامات لگائے کہ نوازشریف اب واپس نہیں آئیں گے اور کہانیاں تراشیں،ماضی گواہ ہے کہ میں نے مشکل حالات کا سامنا کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی 20کروڑ عوام کو اکیلے کس طرح چھوڑ سکتا ہوں،10سال پہلے بھی آمریت کے دور میں اسی ستمبر کے مہینے میں پی آئی اے کی PK786 پرواز سے پاکستان آیا تھا لیکن مجھے ائیرپورٹ سے باہر نہیں آنے دیا گیا اورملک بدر کردیاگیا اور یہ کیس آج بھی کسی عدالت کی الماری میں پینڈنگ پڑا ہوا ہے۔سابق وزیراعظم نے کہا کہ اگر ہم نے عدالت سے فرار ہونا ہوتا تو ہم خطرات کا سامنا نہ کرتے،ہم نے ماضی میں بھی ڈکٹیٹر کے سامنے سر نہیں جھکایا اور کال کوٹری سمیت جیلیں کاٹی ہیں،ہائی جیک کے جھوٹے الزام میں لمبی قید کی سزا سنائی گئی،کیونکہ ہم قانون اور آئین پر عمل کرنے والے ہیں،ہم قانون کے عمل سے پہلے بھی گزرے ہیں اور اب بھی گزریں گے۔

انہوں نے کہا کہ فرق صرف اتنا ہے کہ اس وقت آمرانہ دور تھا اور آج جمہوری دور ہے،حالانکہ آمرانہ دور میں دہشتگردی کی عدالتوں سے سزا پانے کے بعد بھی دو اپیلوں کا حق دیا گیا اور آج مجھے اس سے بھی محروم کردیاگیا۔نوازشریف نے کہا کہ پہلے عدالت نے پانامہ کیس میں اپیل کو فضول قرار دیا اور پھر اسی کیس کو اہم قرار دیکر مقدمے کی سماعت شروع کردی،پھر اسی عدالت کو ثبوت نہ ملا تو ایک پراسرار جے آئی ٹی بنا دی اور پھر اسی عدالت نے کبھی پانچ اور کبھی تین ججوں کے فیصلے سنائے اور پھر اسی عدالت نے نیب کو حکم دیا کہ وہ اپنے سارے ضابطے توڑ کر براہ راست ریفرنس دائر کرے اور پھر اسی عدالت نے نیب کا بھی کنٹرول سنبھال لیا اور پھر یہی عدالت احتساب کورٹ کی نگران بھی بن گئی ہے اور اب ضرورت پڑی تو یہی عدالت میری آخری اپیل بھی سنے گی،کیا قانون کی پاسداری اور انصاف یہی ہے،آئین کا آرٹیکل 10Aبھی یہی کہتا کہ فیئر ٹرائل ہونا چاہئے،وکلاء کنونشن میں میں نے 12سوالات اٹھائے،ایک ماہ کا عرضہ گزرنے کے بعد بھی ایک سوال کا جواب بھی نہیں آیا اور نہ ہی آسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ 70سالہ ملکی تاریخ میں یہ واحد کیس ہے جس میں عدل وقانون کا سارا وزن پٹشنر پر ڈال دیا گیا اور دفاع کرنے والے کے سارے حقوق صلب کردئیے گئے لیکن حقیقت میں یہ وہی مقدمات ہیں جنہوں نے 24سال پہلے سیاسی انتقام کی کوک سے جنم لیا،مشرف کے 10سالہ دور میں بھی انہی مقدمات کو سزا کے لئے استعمال کیا گیا لیکن کوئی رتی بھر جرم ثابت نہیں ہوا،آج انہی مقدمات کو دوبارہ استعمال کیا جارہا ہے اور انصاف اور قانونی تقاضوں کو پامال کیا جارہا ہے لیکن پھر بھی ہم کارروائی میں شامل ہوئے اور بالآخر فیصلہ آیا کہ آپ پر ایک پائی کمیشن،بدعنوانی،رشوت یا اختیارات کا غلط استعمال تو ثابت نہیں ہوا لیکن آپ کو نااہل کرنا ہے اس لئے اقامے کی آڑ لی جارہی ہے۔

نوازشریف نے کہا کہ مجھے تو اتنا انصاف بھی نہیں دیا گیا کہ آخر بتا دیا جاتا کہ آپ کو پانامہ میں نہیں بلکہ اقامہ میں سزا دی جارہی ہے،یہ لوگوں کو بھی بتایا جانا چاہئے کہ پانامہ میں کچھ نہیں ملا صرف اقامہ سے ہٹایا گیا ہے۔نوازشریف نے کہا کہ وہ عدالتی فیصلے سے سبکدوش ہوگئے ہیں لیکن اسے تو آئینی اور قانونی ماہرین بھی تسلیم نہیں کررہے ہیں تو میں اس فیصلے کو کس طرح تسلیم کرلوں،ایسے فیصلوں کے خلاف عدالتوں میں اپیل کا حق ہو یا نہ ہو لیکن عوام کی عدالت میں اپیل کا حق ضرور ہوتا ہے،اس لئے میری پہلی اپیل پر جی ٹی روڈ پر لاکھوں عوام کا سمندر امڈ آیا اور چار دن اور چار راتیں یہ فیصلہ گونجتا رہا اور بری امام کی نگری سے لیکر داتا کی نگری تک اس فیصلے کی آواز کی گونج آج بھی موجود ہے،پھر میری دوسری اپیل این ای120میں سنی گئی اور اس کا بھی ایک بہت بڑا فیصلہ آیا اور امید ہے کہ 2018ء میں بھی اسی طرح کا ایک بڑا فیصلہ آئے گا جو کہ مولوی تمیز الدین کیس سے لیکر ایسے تمام کیس کے فیصلوں کو بہا لے جائے گا۔

نوازشریف نے کہا کہ پانامہ ڈرامے کا سامنا کیا اور اس مقدمے میں مدعی کی بجائے تمام وزن اور ثبوت ہم پر ڈال دئیے گئے،میں نے اور میرے بچوں نے ان ہیروں سے بنی جے آئی ٹی کا سامنا کیا جن پر پہلے سے انکوائریاں چل رہی تھیں اور ان کے خلاف تو کوئی عدالتی کارروائی نہیں ہوسکی،آج نیب عدالت میں بھی پیش ہوا ہوں اور اللہ کی ذات پر یقین ہے کہ اس سے بھی سرخرو ہوں گا کیونکہ پاکستان کی عوام میرے ساتھ ہے،امید ہے کہ کہیں نہ کہیں سے انصاف ضرورت ملے گا،کیونکہ یہ سزا پوری قوم کو دی گئی ہے،ملک کی ترقی کو روک کر اسے تماشا بنا دیا گیا ہے،میں اپیل کرتا ہوں کہ خدارا ملک کو آئین کے مطابق چلنے دو،اگر آئین عوام کو حکمرانی کا حق دیتا ہے تو پھر اسے تسلیم کرو اور حیلے بہانوں سے نہ ہٹاؤ،ایسے فیصلے پہلے بھی پاکستان کو دولخت کرچکے ہیں۔

نواز شریف نے کہا کہ عوام کا آئینی حق نہ چھینوں لیکن انصاف کا عمل جب انتقام کا عمل بنا دیا جائے تو پھر عدالتوں کا احترام نہیں رہتا،عدالتی تاریخ بھی ایسے فیصلوں سے بھری پڑی ہے جن سے ہمیں ندامت ہوتی ہے لیکن وقت آگیا ہے کہ اس تاریخ کو تبدیل کرنا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ میں جھوٹ پر مبنی مقدموں کا سامنا کر رہا ہوں اور میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں یہ مقدمے لڑوں گا،کیونکہ پاکستانی قوم سمیت آئین اور جمہوریت کا مذاق اڑایا گیا ہے اور ووٹ کے تقدس کو پامال کیا گیا ہے،70برس سے نشانہ بننے والے وزرائے اعظم کا یہ مقدمہ ہے،اس میں فتح عوام اور پاکستان کی ہوگی،پوری قوم جانتی ہے کہ میری نااہلی تنخواہ نہ لینے کی وجہ سے ہوئی،میرے اثاثوں کی جانچ کرنے والے میرے دوسرے اثاثے بھی دیکھ لیتے جس میں ہر قسم کی لالچ دھمکیوں کے باوجود ایٹمی اثاثوں کا اعلان کیا،موٹر ویز،لواری ٹنل،بجلی کے کارخانے کوئی معمولی اثاثہ نہیں ہے،لوڈشیڈنگ اور دہشتگردی کا خاتمہ ،غریب عوام کیلئے ٹرانسپورٹ،سی پیک کی شکل میں 54ارب ڈالر کی سرمایہ کاری،بلوچستان میں امن ،اکانومی کی ترقی کوئی معمولی اثاثہ نہیں ہے،مجھے معلوم ہے کہ مجھے کس جرم کی سزا دی جارہی ہے لیکن پھر بھی اپنی عوام کے ساتھ کھڑا رہوں گا،مجھے ماضی کے مقدمے بھی عوام سے دور نہیں رکھ سکے حالانکہ 2013ء کے ڈوبتے ہوئے پاکستان کا حال پوری قوم جانتی ہے اور اب2017ء کے پاکستان میں کتنی منزلوں کے بعد یہ ترقی حاصل کی تھی جن میں اس کو دھرنوں اور فتنوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

انہوں نے کہا کہ حلقہ این اے 120کی عوام کا شکرگزار ہوں جو کہ اس مشکل وقت میں بھی(ن) لیگ کے ساتھ کھڑے رہے،یہ اتحاد اور عوامی اہمیت 2018ء میں بھی(ن) لیگ کی کامیابیوں کی ضمانت ہے،اب پاکستان کا رخ غربت کی طرف نہیں جائے گا کیونکہ میں نے پاکستان کی ترقی کی قسم اٹھائی ہے اور یہ ترقی آگے بڑھتی رہے گی۔