ملک میں مسلمانوں کی نسل کشی نہیں کی جارہی، میانمار سفیر کی اقوام متحدہ میں ہرزہ سرائی

ْریاست کا مسئلہ انتہائی پیچیدہ ہے ، اقوام متحدہ کی رکن ریاستیں اور بین الاقوامی کمیونٹی کو شمالی رخائن کی صورت حال کا بغور اور غیر جانبدار انداز میں جائزہ لینا چاہیے، میانمار سفیر کی اقوام متحدہ اجلاس میں گفتگو

منگل 26 ستمبر 2017 17:23

نیویارک (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 26 ستمبر2017ء) اقوام متحدہ میں میانمار کے سفیر نے متعدد ممالک کی جانب سے رخائن میں جاری صورت حال پر دیئے جانے والے بیانات پر سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ میانمار میں مسلمانوں کی نسل کشی نہیں کی جارہی۔غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق میانمار کے سفیر ہان ڈو سوان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جاری اجلاس کے چھٹے روز اپنے جواب کے حق کا استعمال کرتے ہوئے دنیا کے متعدد ممالک کی جانب سے 193 ارکان کی عالمی باڈی میں دیئے جانے والے بیانات کو غیر ذمہ دار بیان اور غیر قانونی الزامات قرار دیا۔

انہوں نے کسی ملک کا نام نہیں لیا جیسا کہ متعدد ممالک نے 25 اگست کے بعد میانمار سے ہجرت کرنے والے 4 لاکھ 20 ہزار روہنگیا مسلمانوں کے حوالے سے بات کی تھی۔

(جاری ہے)

یاد رہے کہ میانمار حکومت پر الزام لگانے والوں میں بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ، اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گیتریز، اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چیف زید رعد الحسین اور اسلامی ممالک میں متحدہ عرب امارات شامل ہیں تاہم میانمار کے سفیر نے ان دعوں کو مسترد کیا۔

انہوں نے کہا کہ کوئی نسل کشی نہیں کی جارہی اور نہ ہی نسل پرستی کا عنصر موجود ہے۔میانمار کے سفیر کا کہنا تھا کہ میانمار کے رہنما جو طویل عرصے سے آزادی اور انسانی حقوق کے لیے جدو جہد کررہے ہیں، ایسی پالیسز کی حمایت نہیں کرسکتے، ہم نسل کشی کو روکنے کے لیے ہر ممکن اقدامات اٹھا رہے ہیں۔انہوں نے روہنگیا ریاست کے مسئلے کو انتہائی پیچیدہ قرار دیا اور زور دیا کہ اقوام متحدہ کی رکن ریاستیں اور بین الاقوامی کمیونٹی کو شمالی رخائن کی صورت حال کا بغور اور غیر جانبدار انداز میں جائزہ لینا چاہیے۔

انہوں نے آراکان روہنگیا سیلویشن آرمی (اے آر ایس ای) کی جانب سے حملوں کے آغاز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ ہر حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف لڑیں اور معصوم عوام کا تحفظ کریں۔25 اگست کے حملے اور سیکیورٹی آپریشن کے حوالے سے میانمار کے سفیر کا کہنا تھا کہ متعدد بچوں اور خواتین کو ہجرت کرنے پر مجبور کیا گیا جبکہ مردوں کو اے آر ایس اے میں بھرتی کیا گیا تاکہ میانمار کی سیکیورٹی فورسز کے خلاف لڑا جاسکے۔ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں نے ہر جگہ آئی ای ڈی نصب کیے، پلوں کو اڑایا گیا اور افراتفری پھیلائی گئی۔۔

متعلقہ عنوان :