پانامہ کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ آتے ہی عہدے سے سبکدوش ہو گیا، نوازشریف

منگل 26 ستمبر 2017 16:57

پانامہ کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ آتے ہی عہدے سے سبکدوش ہو گیا، نوازشریف
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 26 ستمبر2017ء) سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے کہا ہے کہ پانامہ کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ آتے ہی عہدے سے سبکدوش ہو گیا لیکن اس فیصلے کو جب آئینی و قانونی ماہرین نے نہیں مانا تو میں اسے کیسے تسلیم کرلوں، ڈر ہے کہ پاکستان کسی سانحہ کا شکار نہ ہو جائے، اہلیت اور نا اہلیت کے فیصلے 20کروڑ عوام کو کرنے دو،ملکی تاریخ میں پاناما کیس پہلا کیس ہے جس میں دفاع کرنے والے کے تمام آئینی و قانونی حقوق صلب کرلئے گئے،میں اور میرے بچے جے آئی ٹی کے ان ہیروزکے سامنے پیش ہوتے رہے جن میں سے بعض کے خلاف انکوائریاں ہو رہی تھیں، اگر فیصلوں کی ساکھ نہ رہے توپھر عدالتوں کی ساکھ بھی نہیں رہتی،ہمارے تاریخ ایسے فیصلوں سے بھری پڑی ہے جنہیں دیکھ کر ندامت ہوتی ہے،ماضی میں بھی آمریت کے سامنے سر نہیں جھکایا، حالات کی سنگینی کا سامنا پہلے بھی کیا اور اب بھی کر رہا ہوں،پاناما کیس میں نشانہ میں اور میرا خاندان ہے، سزا پاکستان کو دی جا رہی ہے،جھوٹ پر مبنی بے بنیاد مقدمے لڑ رہا ہوں، اب حقیقی مقدمہ لڑنے کا تہیہ کرلیا مجھے یقین ہے آخری فتح عوام اور پاکستان کی ہوگی،عظیم فیصلہ 2018میں آئے گا جو مولوی تمیز الدین سے لے کر اب تک کے تمام فیصلے بہا لے جائے گا،مجھے میرے 12سوالوں کا جواب ابھی تک نہیں ملا ۔

(جاری ہے)

وہ منگل کوپنجاب ہائوس میں پارٹی رہنمائوں سردار یعقوب ناصر ،سینیٹر راجہ ظفر الحق،سینیٹر اسحاق ڈار، چوہدری نثار علی خان،خواجہ سعد رفیق اور تہمینہ دولتانہ سمیت دیگر کے ہمراہ پر ہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔ سابق وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ مجھے اس واقعہ سے ذاتی دکھ ہوا ہے سب سے افسوس کا اظہار کرتا ہوں، مجھے اپنی اہلیہ کلثوم نواز کی بیماری کی وجہ سے ہنگامی طور پر لندن جانا پڑا، اس کی تفصیل آپ کے سامنے ہے، پاکستانی قوم کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اہلیہ کیلئے دعائیں کیں ،اللہ جزا ئے خیر دے، یہ بات میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی کہ میں زیادہ دیر ملک سے باہر رہوں گا۔

انہوں نے کہا کہ میرے قریبی رفقاء کو پتہ تھا کہ جلد وطن واپسی طے ہو گئی تھی،میرا ماضی گواہ ہے کہ حالات کی سنگینی کا مقابلہ بارہا کیا یہ صرف میری نہیں پاکستانی قوم کا مسئلہ ہے،میں نے آمریت کے دور میں بھی دسمبر کے مہینے میں اسی فلائٹ پی کے 706سے پاکستان کا سفر طے کیا لیکن مجھے ہوائی اڈاے سے باہر نہ نکلنے دیا گیا، ایسے کئی مقدموں کی فائلیں قانونی عمل کیلئے پڑی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ قید کاٹی کال کوٹھڑیوں اور ہائی جیک کے مقدمے میں لمبی قید کاٹی لیکن آمریت کے سامنے سر نہیں جھکایا، اب فرق یہ ہے کہ میں آمرانہ دور میں بھی اس عمل سے گزرا لیکن وہاں مجھے اپیل کا حق تھا لیکن آج مجھے اپیل کا حق بھی نہیں ، جس عدالت نے خلاف فیصلہ دیا اس نے جے آئی ٹی بنائی، اسی عدالت نے نیب کو حکم دیا تمام ضابطے توڑ کر ریفرنسز دائر کرلئے پھر اسی عدالت نے نیب کا کنٹرول بھی سنبھال لیا، اب اگر ضرورت پڑی تو پھر وہی عدالت میری اپیل بھی سنے گی۔

انہوں نے کہا کہ میں نے وکلاء کنونشن میں 12سوال اٹھائے لیکن ابھی تک کسی ایک سوال کا جواب نہیں آیا نہ آ سکتا ہے، پانامہ تاریخ کا پہلا کیس ہے جس میں دفاع کرنے والے کے حقوق سلب کرلئے گئے اور سارا انصاف درخواست گزار کے پلڑے میں ڈال دیا گیا اور دوسرے کو حق بھی نہیں دیا، آج پھر آمریت کے دور کے پسے ہوئے مقدمات کو استعمال کیا جا رہا ہے، ہم دیکھ رہے ہیں کہ انصاف و قانون کے تقاضے کس طرح پائمال ہو رہے ہیں، ہمارے اوپر کرپشن و بدعنوانی اور اختیارات کا ناجائز استعمال نہیں ہوا۔

نواز شریف نے کہا کہ مجھے بتا دیتے کہ پانامہ میں کچھ نہیں ملا، لہٰذا اقامہ پر سزا دی جا رہی ہے تا کہ لوگوں کو بات سمجھ آ جاتی لیکن اس فیصلے پر وکلاء برادری ہی سمجھ بوجھ رکھنے والا ہر شخص سوچ زدہ ہے،نہ ہی کسی نے اسے تسلیم کیاہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے فیصلوں کے خلاف اپیل ہو یا نہ ہو ان کے فیصلے آتے رہے ہیں، لیکن اس کا پہلا فیصلہ جی ڈی روڈ کے راستے عوام نے سنایا، جس کی گونج آج بھی موجود ہے، اس کے بعد فیصلہ این اے 120نے سنایا، یہ فیصلے مسلسل آتے رہیں گے، اب ایک اور عظیم فیصلہ 2018میں آئے گا جو مولوی تمیز الدین سے لے کر سب فیصلے بہا لے جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ میں اور میرے بچے کئی بار ان کے سامنے ہیروں کے سامنے پیش ہوئے، جن کے خلاف سپریم کورٹ بھی کوئی کاروائی نہیں کر سکتی۔ انہوں نے کہا کہ میں احتساب عدالت میں بھی پیش ہو گیا ہوں، میرا ضمیر صاف ہے، عوام میرے ساتھ ہے، یہ سزا صرف مجھے نہیں پورے پاکستان کو مل رہی ہے۔ نواز شریف نے کہا کہ جمہوری فیصلوں کو دیکھتے دیکھتے تباہ کر دیا، اگر آئین پلاکستانی عوام کو حکمرانی کا حق دیتا ہے تو اسے تسلیم کرلینا چاہیے، اب 70سالوں سے چلتا آ رہا ہے، اب اہلیت اور نا اہلیت کے فیصلے پاکستانی عوام کو نے دیئے جائیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر فیصلوں کی ساکھ نہ رہے تو عدالتوں کی بھی ساکھ نہیں رہتی، تمیز الدین سے لے کر اب تک تاریخ ایسے فیصلوں سے بھری پڑی ہے۔ سابق وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ میں جھوٹ پر مبنی مقدمات لڑ رہا ہوں، اب سب سے بڑا مقدمہ بھی لڑنے کا اصولی فیصلہ کرلیا اور یہ مقدمہ ہے پاکستان کے آئین حکمرانی، عوام کا ووٹ 70برس سے نشانہ بننے والے وزراء اعظم کا مقدمہ یہ سب میں لڑتا رہوں گا اور فتح میری ہی ہو گی، امید کے ساتھ کھڑا ہوں کہ انصاف کہیں نہ کہیں زندہ ہے، الزام یہ ہے کہ بیٹے سے وصول کی گئی تنخواہ ظاہر نہیں کی، میرے اثاثے دیکھنے والے یہ تو دیکھ لیتے، دھمکیوں کے باوجود ایٹمی تجربے کس نے کئے تھے، لواری ٹنل، نیلم جہلم پاور پلانٹ، گیس کی قلت، لوشیڈنگ ،دہشت گردی، سی پیک، غریبوں کیلئے ٹرانسپورٹ، کراچی بلوچستان اور فاٹا میں امن کا قیام پاکستان کی ڈوبتی معیشت کو اوپر لانا پاکستان کے عوام میں یقین پیدا کرنا، نوجوانوں کیلئے روزگار کے مواقعے پیدا کرنا، کیا یہ معمولی اثاثہ ہے، میرے لئے خوشی کی بات ہے کہ قوم میرے ساتھ ہے، یہ میرا قیمتی اثاثہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں جانتا ہوں کہ میرا اصل جرم کیا ہے لیکن میں عوام کے ساتھ کھڑا رہوں گا، میرے اور عوام کے درمیان خلیج پیدا کرنے کی سازش کامیاب نہیں ہو گی، چار سالوں میں دھرنوں اور فتنوں کے باوجود ترقی کا پہیہ نہیں روکنے دیا گیا، خواہش ہے کہ سی پیک جیسے منصوبے جلد مکمل ہوں۔ انہوں نے کہا کہ لاہور کے حلقہ این اے 120کے عوام کا شکرگزار ہوں جنہوں نے مشکل حالات میں فتح دلوائی، ان کا یہ فیصلہ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، کارکنوں کو خراج تحسین پیش کر تا ہوں جو پارٹی کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں، اب ہم پاکستان کی ترقی و خوشحالی کا رخ غربت و پسماندگی کی طرف نہیں مڑنے دیں گے۔