افغانستان میں گزشتہ چار عشروں سے جاری جنگ کی وجہ سے خطے میں دہشت گردی اور انتہا پسندی سامنے آئی ہے

افغانستان میں امن اور استحکام کا قیام پاکستان کے بہترین مفاد میں ہے، داعش افغانستان میں اپنے دائرہ کار کو پھیلا رہی ہے جو پڑوسی ممالک کیلئے پریشان کن ہے، افغانستان میں 20 سے زیادہ دہشت گرد تنظیمیں کام کر رہی ہیں جن میں سے کئی پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرتی ہیں اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی کا سلامتی کونسل میں افغانستان کی صورتحال پر مباحثے کے دوران اظہار خیال، افغان وزیر خارجہ کا مؤقف مسترد

منگل 26 ستمبر 2017 13:02

افغانستان میں گزشتہ چار عشروں سے جاری جنگ کی وجہ سے خطے میں دہشت گردی ..
اقوام متحدہ ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 26 ستمبر2017ء) افغانستان میں عدم تحفظ کی بنیادی وجوہات اس ملک کے اندر ہیں، باہر نہیں کیونکہ پہلے ہی جنگ سے تباہ حال اس ملک میں 20 سے زیادہ دہشت گرد تنظیمیں فعال ہیں۔یہ بات اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں افغانستان کی صورت حال پر ایک مباحثے کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے کہی۔

انہوں نے کہا کہ افغان حکومت خود کو درپیش چیلنجز پر زیادہ سنجیدگی سے توجہ مرکوز کرے اور اپنی سمت درست کرے۔ افغانستان کے وزیرخارجہ صلاح الدین ربانی کے موقف کومستردکرتے ہوئے ڈاکٹرملیحہ لودھی نے کہاکہ پڑوسی ملک افغانستان میں امن اوراستحکام کا قیام پاکستان کے بہترین مفاد میں ہے، داعش افغانستان میں اپنے دائرہ کارکوپھیلارہی ہے جو نہ صرف افغانستان بلکہ پڑوسی ممالک کیلئے پریشان کن ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہاکہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ افغانستان میں 20سے زیادہ دہشت گرد تنظیمیں کام کررہی ہیں جن میں سے کئی پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرتی ہیں، افغانستان میں گزشتہ چار عشروں سے جاری جنگ اورخانہ جنگی کی وجہ سے خطے میں دہشت گردی اورانتہاء پسندی سامنے آئی ہے، افغانستان سے دہشت گردوں، منشیات اورپناہ گزینوں کی بڑی تعداد میں آمد کی وجہ سے پاکستان کی معیشیت پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں اورملکی بڑہوتری متاثر ہوئی ہے۔

انہوں نے کہاکہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کامیابی سے لڑی ہے اوراس دوران ہم نے اپنے قصبوں اورشہروں کو دہشت گردوں سے پاک کردیاہے، اس مہم میں پاکستان نے قیمتی انسانی جانوں کی قربانیاں دی ہیں ہمارے 27ہزار سے زائد سویلین اورسکیورٹی اہلکار اپنی جانیں قربان کر چکے ہیں، دہشت گردی کے خلاف جنگ کی وجہ سے پاکستان کے اقتصادی نقصان کا تخیمنہ 120 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔

انہوںنے کہاکہ بدقسمتی سے افغانستان میں دہشت گردوں کے محفوظ پناہ گاہوں کا زیادہ نقصان پاکستان کو پہنچ رہاہے، افغانستان کی سکیورٹی فورسز اوراتحادی افواج کو ان پناہ گاہوں کے خاتمے کیلئے عملی اقدامات کو یقینی بناناہوگا، اپنی ذمہ داریوں کے ضمن میں پاکستان نے سرحدی کنٹرول کو مضبوط اورمنظم کیاہے تاہم اس کے باوجود پاکستان میں ہونے والے حملوں کے سدباب کیلئے افغانستان کو مزید کچھ کرنا ہوگا۔

ڈاکٹرملیحہ لودھی نے کہاکہ افغانستان کی حکومت اور خانہ جنگی پیدا کرنے والوں کے درمیان مذاکرات کے عمل میں مدد وحمایت کی فراہمی کی ضرورت ہے،ہم سمجھتے ہیں کہ امن صرف مذاکرات سے قائم ہوسکتاہے،اگر بین الاقوامی برادری کی طرح افغانستان کی حکومت بھی بین الافغان مذاکرات کا ادراک کرے تو اس صورت میں افغانستان میں امن کے قیام کو ممکن بنایا جاسکتاہے، پاکستان نے طالبان سے تشدد ختم کرنے اورمذاکرات کا راستہ اختیارکرنے کیلئے کہا ہے ، جس چیزکیلئے ہمارا ملک تیارنہیں وہ یہ ہے کہ ہم اپنی سرزمین پر افغانستان کی جنگ نہیں لڑسکتے، اوریہی بات وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں بھی کہی ہے، اسی طرح پاکستان ایسی کسی پالیسی کی حمایت نہیں کرسکتا جس کو ماضی میں ناکامی کا سامنا دیکھنا پڑاہے اورجس سے خطہ اب بھی عدم استحکام سے دوچار ہورہاہے، داعش کو ختم کرنے کیلئے مربوط کوششوں کی ضرورت ہے ، اس کے ساتھ ساتھ مذاکرات کیلئے تیارگروپوں سے مذاکرات کا آغاز کرنا چاہئیے۔

ملیحہ لودھی نے پاکستان اورافغانستان کے درمیان تاریخی،مذہبی اورثقافتی رشتوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ دونوں ممالک کے درمیان یہ بندھن بہت مضبوط ہے اور یہ دوستی افغانستان میں غیرملکی مداخلت اوربالادستی کے باوجود جاری رہی گی اس کو برداشت کریں گی۔