پاکستان میں ٹیکس دہندگان کی تعداد ساڑھے آٹھ لاکھ سے بڑھ کر ساڑھے بارہ لاکھ ہو گئی ہے۔خواجہ عدنان

پیر 25 ستمبر 2017 22:52

فیصل آباد۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 25 ستمبر2017ء) فیڈرل بورڈ آف ریونیوکے ممبر انفارمیشن ٹیکنالوجی خواجہ عدنان ظہیر نے کہا ہے کہ پاکستان میں ٹیکس دہندگان کی تعداد ساڑھے آٹھ لاکھ سے بڑھ کر ساڑھے بارہ لاکھ ہو گئی ہے جبکہ اس میں مزید اضافے کیلئے کوششیں جاری ہیں۔ وہ فیصل آباد چیمبر آف کامرس اینڈانڈسٹری میں انکم ٹیکس کے گوشوارے جمع کرانے کے سلسلہ میں ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ ٹیکسوں کے بغیر ملکی نظام کو چلانا نا ممکن ہے۔ پاکستان میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح بہت کم ہے جس میں اضافہ کیلئے منظم اور مربوط کوششوں کے علاوہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کو بھی بروئے کار لایا جا رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ٹیکس دہندگان میں سے بھی فائلر ز اور نا ن فائلرز کی الگ الگ کیٹیگریزبنائی گئی ہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے ٹیکس ایجوکیشن کی ضرورت پر بھی زور دیا اور کہا کہ بڑے شہروں میں ٹیکس کے نئے زونز بھی بنائے جا رہے ہیں تا کہ ٹیکس نیٹ میں اضافہ کیا جا سکے اور اس حوالے سے ٹیکس دہندگان کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں بھی مہیا کی جا سکیں۔

ودہولڈنگ ٹیکس کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ نظام پوری دنیا میں چل رہا ہے ۔ تاہم ودہولڈنگ ٹیکس دینے والے ہر شخص کی ذاتی لیجر تیار کیا جاتاہے جس میں اس کا پورا حساب کتاب رکھا جاتا ہے انہوں نے کہا کہ ابھی یہ سسٹم تیاری کے مراحل میں ہے اور امید ہے کہ اسے 30 جون 2018 تک مکمل کر لیا جائیگا۔ نیشنل ٹیکس نمبر اور سیلز ٹیکس نمبر لینے کے سلسلہ میں دشواریوں کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کوئی بھی شخص اپنے کمپیوٹر پر بیٹھ کر این ٹی این حاصل کر سکتا ہے جبکہ سیلز ٹیکس ریٹرن نمبر کسی فرم کو نہیں بلکہ متعلقہ شخص کو جاری کیا جاتا ہے۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ایکٹو ٹیکس دہندگان کی ویب سائٹ کو ہر اتوار کی رات بارہ بجے اپ ڈیٹ کیا جاتا ہے۔ اس سے قبل فیصل آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر انجینئر محمد سعید شیخ نے کہا کہ ملکی نظام کو چلانے کیلئے ٹیکسوں کو بنیادی اور کلیدی اہمیت حاصل ہے۔ حکومت اور بزنس کمیونٹی دونوں ہی ٹیکسز کی اہمیت کو سمجھتے ہیں ۔

اس سلسلہ میں وقتاً فوقتاً مسائل بھی پیدا ہوتے رہتے ہیں جن کو باہمی مشاورت سے حل کر لیا جاتا ہے ۔ تاہم بعض حقائق ایسے ہیں جن کا ذکر کرنا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح 10.5 ہے ۔ انہوں نے کہا کہ جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ 21 فیصد ہے مگر ٹیکسوں کی ادائیگی میںیہ شعبہ صرف ایک فیصد ادا کر رہا ہے۔ دوسری طرف صنعتی شعبہ اپنی تمام تر زبوں حالی کے باوجود جی ڈی پی میں 13.5 فیصد کے حصہ کے باوجود ٹیکسوں کا 57 فیصد بوجھ اٹھا رہا ہے۔

اس غیر منصفانہ نظام کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے پاس ٹیکسوں کی وصولی کیلئے متعلقہ صلاحیت اور عملہ ہی موجود نہیں۔ انہوں نے فیصل آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی اس تجویز کو بھی دوہرایا کہ ٹیکسوں کی وصولی کے نظام میں متعلقہ چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کو بھی شامل کیا جائے۔ اس طرح جہاں حکومتی محاصل میں اضافہ ہوگا وہاں نئے ٹیکس دہندگان کو رضا کارانہ طور پرٹیکس نیٹ میں شامل کرنے میں بھی مدد ملے گی۔

سینئر نائب صدر رانا سکندر اعظم نے کہا کہ نان فائلرز کو زیادہ ٹیکس لگانے کی بجائے ان کیلئے دس مرلے کے گھر یا بڑی کاریں خریدنے پر ہی پابندی لگائی جائے تا کہ انہیں ٹیکس نیٹ میں آنے پر مجبور کیا جا سکے۔ آخر میں صدر انجینئر محمد سعید شیخ اور ایف بی آر کے ممبر انفارمیشن ٹیکنالوجی خواجہ عدنان ظہیر نے آپس میں شیلڈوں کا تبادلہ کیا جبکہ سینئر نائب صدر رانا سکندر اعظم نے چیف کمشنر اِن لینڈ ریونیو ڈاکٹر محمد اکرم کو فیصل آباد چیمبر آف کامرس اینڈانڈسٹری کی اعزازی شیلڈ پیش کی۔

اس موقع پر نائب صدر انجینئر احمد حسن ، چوہدری طلعت محمود، شیخ محمد خالد حبیب، شیخ عبدالقیوم، چوہدری محمد نواز، انجینئر رضوان اشرف، انجینئر احتشام جاوید، حاجی محمد رفیع اور چوہدری حبیب گجر وغیرہ بھی موجود تھے۔

متعلقہ عنوان :