مستقبل کی جنگیں پانی کی بنیاد پر لڑی جائیں گی ہمسایہ ممالک کیساتھ ہمارے آبی تنازعات نے ماہرین کا یہ دعویٰ سچ ثابت کردیا ،

مگر افسوس ہمارے حکمران خواب غفلت میں مبتلا ہیں ، قوم کو زندگی بخشنے والے پانی کی نہ صرف پورے ملک میں دستیابی کویقینی بنانے کیلئے ٹھوس اقدامات وقت کا تقاضا ہیں، اسے داخلہ و خارجہ پالیسیوں کا لازمی حصہ بھی بنایا جائے ہماری حکومت کو احساس ہوچکا جس طرح تعلیم وصحت قومی تعمیر و ترقی کیلئے ناگزیر شعبے ہیں ،اسی طرح ہم اگلے مرحلے میں پانی کے شعبے میں بھی ایمرجنسی لگانے کا سنجیدگی سے جائزہ لے رہے ہیں ، دوسری طرف آبپاشی کے مقاصد کیلئے بھی ٹھوس اقدامات کئے جائیں جس کی بدولت صوبے کے کسی بھی حصے میں کسی بھی مقصد کیلئے پانی کی کمی محسوس نہ ہونے پائے گی وزیر اعلی خیبر پختونخوا پرویز خٹک کا حصار فائونڈیشن اور ایشیاء فائونڈیشن کے زیر اہتمام واٹر کانفرنس کی اختتامی نشست سے خطاب

پیر 25 ستمبر 2017 21:31

مستقبل کی جنگیں پانی کی بنیاد پر لڑی جائیں گی ہمسایہ ممالک کیساتھ ہمارے ..
پشاور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 25 ستمبر2017ء) خیبر پختونخوا کے وزیر اعلی پرویز خٹک نے کہا ہے کہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ ہمارے آبی تنازعات نے ماہرین کا یہ دعویٰ سچ ثابت کردیا ہے کہ مستقبل کی جنگیں پانی کی بنیاد پر لڑی جائیں گی مگر افسوس کہ ہمارے حکمران خواب غفلت میں مبتلا ہیں حالانکہ وقت کا تقاضا ہے کہ قوم کو زندگی بخشنے والے پانی کی نہ صرف پورے ملک میں دستیابی کویقینی بنانے کیلئے ٹھوس اقدامات کئے جائیں بلکہ اسے داخلہ و خارجہ پالیسیوں کا لازمی حصہ بنایا جائے، ہماری حکومت کو احساس ہوچکا ہے کہ جس طرح تعلیم اور صحت قومی تعمیر و ترقی کیلئے ناگزیر شعبے ہیں اور ان میں پہلے دن سے ایمرجنسی کا اعلان کرکے صوبے میں خاموش انقلاب کی بنیاد رکھ دی گئی ہے اسی طرح پانی بھی عوام کی صحت کی کلید ہے اور اگلے مرحلے میں ہم پانی کے شعبے میں بھی ایمرجنسی لگانے کا سنجیدگی سے جائزہ لے رہے ہیں تاکہ ایک طرف لوگوں کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے ذریعے اُن کی صحت کو یقینی بنایا جائے تو دوسری طرف آبپاشی کے مقاصد کیلئے بھی ٹھوس اقدامات کئے جائیں جس کی بدولت صوبے کے کسی بھی حصے میں کسی بھی مقصد کیلئے پانی کی کمی محسوس نہ ہونے پائے ۔

(جاری ہے)

پیر کو وہ پشاور کے مقامی ہوٹل میں حصار فائونڈیشن اور ایشیاء فائونڈیشن کے زیر اہتمام واٹر کانفرنس کی اختتامی نشست سے بحیثیت مہمان خصوصی خطاب کررہے تھے۔تقریب سے مختلف محکموں اور شعبوں میں آبی ماہرین کے علاوہ صوبائی وزیر تعلیم محمد عاطف خان، پشاور یونیورسٹی کے وائس چانسلر ،ڈبلیو ایس ایس پی کے چیف ایگزیکٹیو ، واپڈ کے ڈائریکٹر جنرل نارتھ اور دیگر حکام نے بھی خطاب کیااور ملک کے مختلف حصوں میں خشک سالی ، آبی مشکلات اورغذائی بحران پر روشنی ڈالنے کے علاوہ جامع قومی واٹر پالیسی کی تشکیل ضرورت پر زور دیا ۔

پرویز خٹک نے خیبرپختونخوا سمیت ملک میں آبنوشی اور آبپاشی کے سر اُٹھاتے نت نئے بحرانوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اُنہیں حیرت ہوتی ہے کہ اس ملک کے رکھوالے اور نگہبان مستقبل کے چیلنجوں سے نمٹنے میں کیوں ناکام ہوئے ہیں۔آبی ذخائر میں مسلسل کمی کا ادراک ہمارے حکمران کیوں نہ کر پائے اور قوم کو مشکلات کے گرداب میں کیوں دھکیلتے رہے ۔

وزیراعلیٰ نے کہاکہ پانی کے بڑھتے ہوئے بحران کے پیش نظر اب ہماری حکومتوں کا پہلا اقدام یہ ہونا چاہیئے کہ وہ شہروں اور دیہات کی سطح پر عوام کو پانی کی اہمیت اورآبی ذخائر کی حفاظت کیلئے فعال بنائیں کیونکہ عام مشاہدہ یہی ہے کہ شہری پانی کے وسائل کو بے دردی سے ضائع کرتے ہیں اور اس سلسلے میں متعلقہ اداروں سے تعاون نہیں کر پاتے ۔انہوںنے قومی واٹر پالیسی کی تشکیل کے لئے مخلصانہ کوششوں اور تحقیق و دریافت پر حصار فائونڈیشن اور ایشیاء فائونڈیشن کے کردار کو سراہتے ہوئے یقین دلایا کہ صوبائی حکومت نہ صرف اُن کی سفارشات کو پوری سنجیدگی سے لے گی بلکہ مستقبل کے لائحہ عمل میں اُن سے پورا تعاون بھی کرے گی۔

انہوںنے کہاکہ صوبائی حکومت اس سلسلے میں محکمہ ہائے آبپاشی، توانائی، بلدیات و دیہی ترقی اور مواصلات و تعمیرات سمیت تمام متعلقہ محکموں اور اداروں کو اس اہم معاملے پر کام کرنے، پانی کے ضیاع کی روک تھام اور آبی ذخائر کی حفاظت کے سلسلے میں ٹھوس اقدامات کا پابند بنانے جارہی ہے۔اسی طرح صوبے میں چھوٹے ڈیموں کی تعمیر کا دائرہ بھی وسیع کیا جارہا ہے ۔

پرویز خٹک نے کہاکہ پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت نے اس سلسلے میں شروع دن سے دو بڑے کام یہ کئے ہیں کہ ایک طرف پانی کے ضیاع کی روک تھام کی تو دوسری طرف جنگلات کے فروغ کے لئے ٹھوس بنیادوں پر اقدامات کئے حتیٰ کہ کسی دبائو کو خاطر میں لائے بغیر ونڈ فال کے تحت خشک درختوں اور لکڑی کو جنگلات سے ہٹانے پر بھی پابندی عائد کردی کیونکہ ماضی میں اس کی آڑ میں لاکھوں فٹ قیمتی لکڑی اور درختوں کا ضیاع ہوااور قوم کو اربوں کھربوں روپے کا نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ ماحولیات کی تباہی میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔

انہوںنے کہاکہ صوبائی حکومت نے بلین ٹری سونامی کے تحت ایک ارب درخت لگانے کا ہدف پوری کامیابی سے پورا کردیا ہے جو ماحولیاتی بہتری کی کنجی ہے اور ماحولیات کی بہتری ہی آبی ذخائر میں اضافے کا موجب ہے۔ایسے تمام معاملات کی بہتری اور صوبے کو ٹریک پر لانے کیلئے صوبائی حکومت کو تین سال قانون سازی اور اس مقصد کیلئے انتھک جدوجہد کرنا پڑی جس میں بعض حلقوں کی طرف سے شدید مخالفت کے سبب ہمیں طویل مقدمہ بازی بھی کرنا پڑی مگر اپنے اخلاص کی بدولت صوبائی حکومت ایک مقدمہ بھی نہیں ہاری اور عدالتوں میں بھی مسلسل کامیابیاں حاصل کیں۔

انہوںنے آبی ماہرین کے اس نقطہ نظر سے مکمل اتفاق کیا کہ آبی ذخائر میں اضافے اور ماحولیاتی بہتری سمیت تمام شعبوں اور ان سے وابستہ اداروں کی کوششوں کو مربوط بناکر ہی عوام کو ان کے ثمرات سے مستفید کیا جا سکتا ہے اور صوبائی حکومت اس سلسلے میں بھی موثر اقدامات کرے گی ۔صوبائی حکومت نے حکومتی معاملات اور فیصلہ سازی کے عمل کو عوام کی دہلیز پر پہنچا دیا ہے اور نئے بلدیاتی نظام کے تحت اختیارات اور وسائل کی نچلی سطح پر منتقلی کے ساتھ ساتھ نجکاری کو بھی فروغ دیا ہے کیونکہ حکومت کاکام ادارے چلانا نہیں بلکہ موثر نگرانی کرنا اور یہ امر یقینی بنانا ہے کہ عوام کو بنیادی سہولیات بروقت ملیں۔

وزیراعلیٰ نے کہاکہ میں سمجھتا ہوں کہ وفاق کی طرح خیبرپختونخوا کی سابق حکومتوں نے بھی اپنی ذمہ داریوں سے انصاف نہیں کیا۔وہ پانی جو ہماری معیشت کو مضبوط بنیاد فراہم کرسکتا تھا ، مناسب انفراسٹرکچر اور فریم ورک نہ ہونے کی وجہ سے سیلاب کی صورت میں تباہی کا سامان بنتا رہا۔ہماری حکومت نے ان تمام تر کمزوریوں کو دیکھتے ہوئے شروع دن سے اصلاحات کا عمل شروع کیا ۔

اداروں کو پیشہ وارانہ خطوط پر استوار کرنے کے لئے کام شروع کیا ۔صوبائی محکموں میں آزاد اور بااختیار ادارے اور کمپنیاں بنائی گئیں۔ہمیں کشکول اُٹھا کر پھرنے کی ضرورت نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں سب کچھ دیا ہے۔ ہمیں اپنی سوچ میں گہرائی پیدا کرنی ہے، خود اعتمادی کو فروغ دینا ہے ۔ پسماندہ علاقوں کو ترجیح دینی ہے اور لوگوں کی طرز زندگی کو تبدیل کرنا ہے۔اپنے آبی وسائل اور جنگلات کی حفاظت کرنی ہے اور لوگوں میں ایسا جذبہ پیدا کرنا ہے کہ وہ ان تمام وسائل سے استفادہ کرتے ہوئے ان کی حفاظت یقینی بنائیں، تاکہ آئندہ نسلوں کے پاس بھی یہ وسائل موجود رہیں۔

متعلقہ عنوان :