سینیٹر سردار محمد یعقوب خان ناصر کی زیر صدارت سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے آبی وسائل کا اجلاس

کمیٹی کی سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت میں مغربی دریاؤں پر بننے والے ڈیمز پر ڈیٹ لیول سے نیچے سپیل وے نہ بنانے اور ڈیمز سے مٹی نکالنے کیلئے دیگر آپشن اختیار کرنے کی سفارش

پیر 25 ستمبر 2017 17:29

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 25 ستمبر2017ء) سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے آبی وسائل نے سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت میں مغربی دریاؤں پر بننے والے ڈیمز پر ڈیٹ لیول سے نیچے سپیل وے نہ بنانے اور ڈیمز سے مٹی نکالنے کیلئے دیگر آپشن اختیار کرنے کی سفارش کردی اور اس حوالے سے وزارت کو اقدامات اٹھانے کی ہدایت بھی کی۔ قائمہ کمیٹی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر سردار محمد یعقوب خان ناصر کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔

قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں بھارت میں مغربی دریاؤںپر بننے والے ڈیمز اور اس حوالے سے سندھ طاس معاہدے پر عمل درآمد کرانے کے حوالے سے اٹھائے جانیوالے اقدامات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ جوائنٹ سیکرٹری آبی وسائل نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ وزیر اعظم پاکستان کے حکم پر وزارت پانی و بجلی کو علیحدہ کردیا گیا ہے ۔

(جاری ہے)

واپڈا وزارت پٹرولیم میں شامل ہوگیا، واپڈا پانی کے بڑے ذخائر اور ہائیڈرل پاور کو ڈیل کرتا ہے۔

ارسا صوبوں کے درمیان 1991ء کے معاہدے کے تحت پانی کی تقسیم کے معاملات دیکھتا ہے۔فیڈرل فلڈ کمیشن صوبوں کے درمیان سیلاب کے حوالے سے مہم جوئی اختیار کرتا ہے اور فلڈ کمیشن آف پاکستان سندھ طاس معاہدے کا نگران ہے۔ بھارت میں مغربی دریاؤںپر بھارت کو ڈیم بنانے کا حق حاصل ہے مگر اس کی ڈیزائننگ پاکستان کی مشاورت سے ہوگی۔ پاکستان کو ڈیمز کی ڈیزائننگ پر اعتراض تھا۔

کمیشنر پاکستان کمیشن فار واٹر میں کمیٹی کو بتایا کہ سندھ طاس معاہدے کے تحت کچھ حقوق پاکستان کو ملے اور کچھ انڈیا کو۔ مشرقی دریاء انڈیا کے پاس جبکہ مغربی دریاؤں کے پانی کا استعمال پاکستان کے لیے طے ہوا تھا۔ البتہ بھارت میں مغربی دریاؤںکا پانی انڈیا بھی زراعت اور ہائیڈرل بجلی کے لیے کچھ مقرر کردہ شرائط کے تحت استعمال کر سکتا ہے۔

جب 1960ء سندھ طاس معاہدہ ہوا تھا تو معاہدے میں 7 لاکھ ایکڑ زمین سیراب کرنے کی اجازت تھی اور ہائیدڑل بجلی کے لیے بننے والے ڈیمز کے ڈیزائن میں دریا کے بہاؤکو کم سے کم روکنے کی شرط تھی۔ مگر جو ڈیزائن اختیار کیے گئے وہ معاہدے کے خلاف تھے ۔ اس لیے ورلڈ بنک اور عالمی ثالثی عدالت بھی گئے۔ ڈیمز میں پانی کے ڈیڈ لیول کے نیچے سپیل وے شامل ہیں ۔

جن پر اعتراض ہے۔ بھارت ابھی 1.4لاکھ ایکڑ زمین مغربی دریاؤں سے سیراب کررہا ہے۔ سینیٹرتاج حید رنے کہا کہ دونوں ممالک کے مابین اعتماد کی کمی ہے اس لیے ڈیڈ لیول کے نیچے سپیل وے بنانے کی اجازت نہیں دی جاتی سکتی اسکو پاکستان کے خلاف استعمال کیا جاسکتا ہے جس پر کمیٹی نے ڈیڈ لیول کے نیچے سپیل وے نہ بنانے کی سفارش کرتے ہوئے متعلقہ اداروں کو ہدایت کردی۔ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹرز نعمان وزیر خٹک ، محمدداؤد خان اچکزئی، نثار محمد، ڈاکٹر غوث محمد خان، احمد حسن کے علاوہ جوائنٹ سیکرٹری وزارت آبی ذخائر سید مہر علی شاہ، کمشنر پاکستان کمیشن فار واٹرمرزا آصف بیگ نے شرکت کی۔