راولپنڈی میں’’خصوصی فیملی کورٹ کمپلیکس ‘‘کے قیام کا منصوبہ وکلا کی مبینہ مداخلت کے باعث ایک سال بعد بھی مکمل نہ ہو سکا

اتوار 24 ستمبر 2017 19:40

راولپنڈی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 24 ستمبر2017ء) چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ کی منظوری کے باوجودعائلی و خوانگی مقدمات کی سماعت کے لئے ضلع راولپنڈی میں’’خصوصی فیملی کورٹ کمپلیکس ‘‘کے قیام کا منصوبہ وکلا کی مبینہ مداخلت کے باعث ایک سال بعد بھی مکمل نہ ہو سکا’’ فیملی کورٹ کمپلیکس‘‘ کے لئے جون 2016میں تھانہ سول لائن سے ملحقہ نوتعمیر شدہ عمارت کرائے پر حاصل کر لی گئی تھی جس کا ماہانہ کرایہ 26لاکھ روپے طے پایا تھاجس میں ضلع کچہری راولپنڈی میں موجود تمام فیملی عدالتوں کو نئے مجوزہ کمپلیکس میں منتقل کیا جا نا تھاتا کہ مقدمات کی سماعت کے لئے آنے والی خواتین کو ممکنہ سہولیات فراہم کرنے کے ساتھ دیگر مقدمات میں نامزد ملزمان کے ساتھ عدالتوں کے باہر سماعت کے انتظار کی کوفت سے بچایا جا سکے تاہم ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن سمیت راولپنڈی کے وکلا کی اکثریت نے مجوزہ منصوبے کو یکسر مسترد کر دیا تھا ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن راولپنڈی نے وکلا سے مشاروت نہ کرنے اور مقدمات کی سماعت کے ضلع کچہری اور مجوزہ عمارت میں فاصلہ کے باعث مخالفت کی اس ضمن میںوکلا کا کہنا ہے کہ ان سے نہ تو کوئی مشاورت نہیں کی گئی نہ ہی بار کے پلیٹ فارم سے وکلا کو اعتماد میں لیا گیا جس کی وجہ سے وکلا اس منصوبے کی تکمیل میں رکاوٹ پیدا کر رہے ہیں اس بارے میں وکلا نے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ مجوزہ جگہ پر پارکنگ کا کوئی معقول انتظام نہیں جبکہ وی آئی پی روڈ ہونے کی وجہ سے یہاں وکلا کی گاڑیاں پارک ہونے سے ایک نیا جھگڑا پیدا ہو گا مجوزہ منصوبے کے کوآرڈی نیٹر ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج طاہر خان نیازی مرحوم نے قتل سے تقریبا پانچ ماہ قبل سیشن جج راولپنڈی اور بار سے اس معاملے پر مشاورت کی تھی لیکن بار نے اس سمری کو یکسر مسترد کر تے ہوئے سیشن جج کو کہا تھا کہ اس حوالے سے بار کی ایگزیکٹو کونسل کے اجلاس میں مشاورت کے بعد فیصلہ کر کے انہیں آگاہ کیا جائے گا تاہم اس مقصد کے لئے وکلا نے مجوزہ عمارت کو مسترد کرتے ہوئے پنجاب حکومت کے ملکیتی جناح پارک کے ایک حصے پر کمپلیکس کے قیام پر رضامندی ظاہر کی تھی جس کے لئے ڈی سی او راولپنڈی سے معاملہ زیر تجویز تھا لیکن بار کے نوٹس میں لائے بغیر فیصلہ کئے جانے کے باعث اس فیصلے کے خلاف بار کی سطح پر ایکشن کمیٹی تشکیل دی جا نی تھی جو تاحال التو ا کا شکار ہے جس کے باعث خانگی مقدمات میںضلعی کچہری آنے والی خواتین کومجبورا مردوں کے رش کے باوجود کئی کئی گھنٹے عدالتوں کے باہر کھڑا ہونا پڑتا ہے اورشیر خوار بچوں کو فیڈ کروانے میں بھی دقت کا سامنا رہتا ہے ان خواتین کا کہنا ہے کہ اگر خانگی عدالتیں سول اور فوجداری عدالتوں سے الگ کر دی جائیں تو نہ صرف انہیں سہولت ہو گی بلکہ محدود مقدمات کے باعث انصاف کی جلد فراہمی بھی ممکن ہو سکے گی دریں اثنا ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج سہیل ناصر نے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس سید منصور علی شاہ کی ہدائیت پر جوڈیشل کمپلیکس راولپنڈی میںمصالحتی مرکز کے قیام کے ساتھ خواتین کی سہولت کے لئے الگ کمروں کا انتظام کیا ہے تاہم ’’خصوصی فیملی کورٹ کمپلیکس ‘‘ تا حال التو ا کا شکار ہے ۔

متعلقہ عنوان :