جمہوری نظام کی بقاء اور مضبوطی کیلئے تمام سیاسی قیادت کو باہمی مشاورت سے ایک نیا میثاق جمہوریت لانا ہوگا، ڈاکٹر فاروق ستار

ملک کے سیاسی حالات اتار چڑھائو کا شکار ہیں، قومی معاملات پر سیاسی اور عسکری قیادت کے درمیان ڈائیلاگ ہونے چاہئیں ایم کیو ایم پاکستان کا اب لندن سے کوئی تعلق نہیں ہے او رنہ ہی لندن سے اب ایم کیو ایم کو چلایا جاسکتا ہے متحدہ پاکستان پی ایس پی یا مہاجر قومی موومنٹ ضم نہیں ہورہی ہیں او رنہ ہی ان میں کوئی اتحاد ہورہا ہے 23 اگست 2016ء کے اقدام کے باوجود ہمیں مکمل سیاسی آزادی نہیں دی گئی، سینئر صحافیوں سے بات چیت

اتوار 24 ستمبر 2017 18:30

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 24 ستمبر2017ء) متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان) کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا ہے کہ ملک کے سیاسی حالات اتار چڑھائو کا شکار ہیں، جمہوری نظام کی بقاء اور مضبوطی کے لئے تمام سیاسی قیادت کو باہمی مشاورت سے ایک نیا میثاق جمہوریت لانا ہوگا۔ قومی معاملات پر سیاسی اور عسکری قیادت کے درمیان ڈائیلاگ ہونے چاہئیں۔

لینڈ ریفارمز بلدیاتی اداروں کے اختیارات اور قومی مالیاتی کمیشن کی منصفانہ تقسیم کے لئے قانون سازی کی ضرورت ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان کا اب لندن سے کوئی تعلق نہیں ہے او رنہ ہی لندن سے اب ایم کیو ایم کو چلایا جاسکتا ہے۔ 23 اگست 2016ء کے اقدام کے باوجود ہمیں مکمل سیاسی آزادی نہیں دی گئی ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان کے ارکان پارلیمنٹ، اراکین اسمبلی اور بلدیاتی نمائندے مستعفیٰ نہیں ہوں گے، ہم ایوانوں میں رہ کر عوام کے حقوق کے لئے آواز بلند کرتے رہیں گے۔

(جاری ہے)

متحدہ پاکستان پی ایس پی یا مہاجر قومی موومنٹ ضم نہیں ہورہی ہیں او رنہ ہی ان میں کوئی اتحاد ہورہا ہے تاہم مسائل کے حل کے لئے بات چیت کے سلسلے کو جاری رکھا جائے گا۔ ان خیالات کا اظہا رانہوں نے اتوار کو ایم کیو ایم (پاکستان) کے عارضی مرکز بہادرآباد میں پرنٹ میڈیا سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافیوں کے ایک گروپ سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔

اس موقع پر پارٹی کے سینئر رہنما عامر خان، سید امین الحق، سیف عباس اور دیگر بھی موجود تھے۔ ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ 22 اگست 2016ء کو متحدہ قائد کی متنازع تقریر کے بعد 23 اگست کو ایم کیو ایم پاکستان قائم کی۔ اب ہمارا لندن سے کوئی تعلق نہیں۔ ہماری سیاست پاکستان کے لئے ہے۔ اب لندن سے ایم کیو ایم کو نہیں چلایا جاسکتا۔ ہماری بقاء اسی میں ہے کہ ہم 23 اگست 2016ء کی پالیسیوں کا تسلسل جاری رکھیں۔

ایم کیو ایم پاکستان اب بھی متوسط طبقے کے حقوق کے لئے جدوجہد کررہی ہے۔ 35 سالہ جدوجہد کے ثمرات کو حاصل کرنے کے لئے ہم بھرپور کوشش کریں گے اور 23 اگست کی پالیسی پر ہر حال میں قائم رہیں گے۔ متحدہ پاکستان کی پہلی ترجیح قومی معاملات پر قانون سازی اور ایوانوں میں عوام کے مسائل کے لئے آواز اٹھانا ہے اور اسی پالیسی پر ہم عمل پیرا ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم مہاجر کاز نہیں بلکہ قومی سطح کی سیاست کررہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے عدالت میں بلدیاتی نمائندوں کے اختیارات کے حصول کے لئے ایک آئینی پٹیشن دائر کی ہے جو منظور ہوچکی ہے۔ اگر عدالت نے فیصلہ دیا اور بلدیاتی مقامی حکومتوں کو اختیارات مل گئے تو اس کا فائدہ میئر کراچی کو نہیں بلکہ تمام بلدیاتی حکومتوں اور ان کے نمائندوں کو ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ دوسری پٹیشن ہم روزگار اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کے خلاف عدالت میں دائر کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اور جمہوریت کا مستقبل مقامی حکومتوں کے مربوط نظام سے وابستہ ہے۔ اگر بلدیاتی نظام مستحکم ہوگا تو ملک میں خود بخود امن قائم ہوگا کیونکہ عوام کے مسائل ان کی دہلیز پر حل ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم پاکستان قانون سازی میں بھی بھرپور حصہ لے رہی ہے۔ ہم نے پارلیمنٹ میں مختلف بلز پیش کئے جن میں لینڈ ریفارمز اور قومی مالیاتی کمیشن کی وفاق سے صوبوں اور پھر صوبوں سے مقامی حکومتوں کی منتقلی شامل ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر وسائل کی تقسیم کے لئے آئین کے آرٹیکل 160 کی نئی شق 5 شامل کردی جائے تو پھر وسائل کی منصفانہ تقسیم کا نظام نافذ ہوجائے گا جس سے نئے انتظامی یونٹس اور صوبوں کی تحریکیں خود بخود دم توڑ جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ 18 ویں ترمیم میں صوبائی خود مختاری کا مسئلہ حل ہوا ہے لیکن اب ہمیں ضلعوں کی خود مختاری کے لئے بھی قانون سازی کرنی ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت آئین کے آرٹیکل 140 پر عمل درآمد اور آرٹیکل 160 میں ترمیم کی ضرورت ہے۔ آرٹیکل 140A کے ساتھ اس میں B کا اضافہ کیا جائے تاکہ کسی کو بھی یہ حق حاصل ہوسکے کہ بلدیاتی حکومتوں کو اختیارات نہ ملنے پر وہ صوبائی حکومتوں کے خلاف عدالتوں میں جائے اور صوبائی حکومت کے خلاف عدالت کارروائی کرسکے۔ انہوں نے کہا کہ اس آئینی ترمیم سے عدالتوں کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ صوبائی حکومت کو 6 ماہ کے لئے معطل کرکے وسائل کی منصفانہ تقسیم اور مقامی حکومتوں کے قیام کے لئے بلدیاتی انتخابات کراسکے۔

ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ مردم شماری کے نتائج سے مطمئن نہیں ہیں۔ ان نتائج میں شہری علاقوں کو دیوار سے لگایا نہیں بلکہ چن دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے ایم کیو ایم پاکستان عدالت میں پٹیشن دائر کرچکی ہے تاہم پانامہ لیکس کی وجہ سے بڑے کیسوں کی سماعت نہیں ہوسکی۔ اب ہمیں یقین ہے کہ عدالت اس معاملے پر جلد کیس کی سماعت کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت نے بلدیاتی حکومتوں کے اختیارات سلب کردیئے ہیں۔ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ، ایم ڈی اے، کے ڈی اے، ایس بی سی اے اور واٹر بورڈ صوبائی حکومت کے ماتحت ہیں۔ بلدیاتی نمائندوں کے پاس کچرا اٹھانے کا اختیار بھی نہیں ہے لیکن ایم کیو ایم پاکستان بلدیاتی ایوانوں، سندھ اسمبلی اور پارلیمنٹ سے مستعفیٰ نہیں ہوگی۔ ہم ایوانوں میں رہ کر عوام کا مقدمہ لڑیں گے۔

انہوں نے کہا کہ کراچی میں 9 سال کے دوران 12 لاکھ ٹن کچرا جمع ہوچکا ہے۔ کچرا اٹھانا سب سے بڑا چیلنج ہے، جس کے لئے ہم بلدیاتی ایمرجنسی نافذ کرنے جارہے ہیں اور ہم محدود وسائل کے باوجود چھوٹے پیمانے پر کچرا اٹھانے اور سیوریج نظام کی بحالی کے لئے مشینری خریدیں گے تاکہ بلدیاتی نمائندے اپنی اپنی یونین کونسلز میں چھوٹے عوامی مسائل کو حل کرسکیں۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت ہماری 4 ترجیحات ہیں جن میں کچرا اٹھانا، فراہمی ونکاسی آب کی بحالی، سڑکوں کی استرکاری اور عوامی مسائل کا حل شامل ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کچرا اٹھانے کے لئے جو لینڈ فل سائٹس ملیر اور جام چاکرو میں موجود ہیں جہاں پر غیر قانونی آبادی قائم کردی گئی ہیں۔ شہر میں اس وقت نئی لینڈ فل سائٹس بنانے کی ضرورت ہے۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ 23 اگست کے اقدام کے بعد بھی ایم کیو ایم کو مکمل سیاسی آزادی نہیں ملی ہے۔ ہمارے قانونی دفاتر بند پڑے ہیں۔ چھاپے اور گرفتاریوں کا سلسلہ کبھی کم اور کبھی تیز ہوجاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ لاپتہ اور اسیر کارکنان کے مسائل بھی اب تک حل نہیں ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ ملک میں سیاسی حالات اتار چڑھائو کا شکار ہیں اور ملک کی پارلیمانی قیادت سیاسی حالات پر کشمکش کا شکار ہے۔

انہوں نے کہا کہ قومی ایشوز پر سیاسی اور عسکری قیادت کے درمیان قومی ڈائیلاگ ہونا چاہئے اور ایم کیو ایم اس بارے میں پہلے بھی وضاحت کرچکی ہے کہ تمام اداروں کو اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک احتساب کا نظام مضبوط نہیں ہوگا ملک سے کرپشن ختم نہیں ہوسکتی۔ اس کے لئے قومی احتساب بیورو (نیب) کے ادارے کو بااختیار بنانا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ ایک وزیراعظم کے خلاف کارروائی کرکے ان کو نااہل قرار دیا گیا۔ نظام ایسا ہونا چاہئے کہ جو بھی کرپشن کرے اس کے خلاف بلا امتیاز کاروائی ہونی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم پاکستان ہو، پاک سرزمین پارٹی ہو یا مہاجر قومی موومنٹ ہو ہم سیاسی اختلاف پر یقین نہیں رکھتے، سب کو سیاسی آزادی ملنی چاہئے۔ ہماری پالیسی عدم تشدد کی ہے۔

ہم مسائل کو مذاکرات سے حل کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ 2018ء میں عام انتخابات ہوں گے یا نہیں کے سوال کے جواب میں ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ عام انتخابات کا انعقاد وقت پر ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ انتخابی اصلاحات 2017ء کی قانون سازی میں مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی نے ایک شق ایسی منظور کی ہے جس کے تحت سیاسی جماعتوں کو انتخابی اخراجات میں لامحدود پیمانے پر خرچ کرنے کی اجازت حاصل ہوگئی ہے۔

ہم نے اس شق سے اختلاف کیا ہے۔ اس شق سے بڑی جماعتوں کو فائدہ ہوگا۔ وہ تشہیری مہم کے ذریعے عوام کو اپنی جانب راغب کرنے کی کوشش کریں گے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سینیٹ میں انتخابی اصلاحات بل 2017ء کی منظوری کے دوران ایم کیو ایم پاکستان کے ایک سینیٹر نے پارٹی کی اجازت کے بغیر نااہل شخص کو پارٹی کی صدارت ملنے کی شق کی حمایت کی جس کا ہم جائزہ لے رہے ہیں اور تحقیقات کے بعد تادیبی کارروائی کا فیصلہ کیا جائے گا۔

ایک اور سوال کے جواب میں ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ ملک سے غداری کے الزامات اور اس پر کارروائی کے لئے نظام کو واضح ہونا چاہئے۔ اگر کسی کو ئی الزام لگایا جاتا ہے تو ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کو عدالت میں لے کر جائے، ثبوت پیش کرے اور اس کے خلاف کارروائی کرے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم بلدیاتی نمائندوں کی کارکردگی کا جائزہ لے رہے ہیں۔

فی الحال کسی کو تبدیل نہیں جارہا ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ بلدیاتی نمائندوں کی کارکردگی بہتر ہو۔ انہوں نے کہا کہ جو ارکان اسمبلی چھوڑ کر ہمیں دیگر جماعتوں میں چلے گئے ہیں ، ان کو اپنے ضمیر اور اخلاقی طور پر مستعفیٰ ہوجانا چاہئے اور مراعات نہیں لینی چاہئے تاہم ہم ان کے خلاف ریفرنس دائر نہیں کررہے ہیں، شاید جس طرح آج وہ ہمیں کسی د بائو میں چھوڑ کر گئے ہیں ، کل ممکن ہے کہ وہ پارٹی چھوڑ کر ہمارے پاس واپس آجائیں۔