ترجمان فنانس ڈویژن نے وزیر خزانہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار کے دور میں ’’ پاکستان پر قرضوں کے بوجھ ‘‘ کے حوالے سے چھپنے والی خبروں کو مسترد کر دیا

گزشتہ چار سال کے دوران موجودہ حکومت نے شاندار اقتصادی کامیابیاں حاصل کی ہیں ، قومی معیشت کا حجم 2013ء کے 225 ارب ڈالر کے مقابلہ میں 2017ء میں 304 ارب ڈالر تک بڑھ چکا ہے، قومی معیشت کی سالانہ اوسط شرح نمو 35 فیصد رہی ہے، معیشت کی ترقی اور کامیابی موجودہ حکومت کی دانشمندانہ اقتصادی پالیسیوں کا نتیجہ ہے ، شرح سود میں نمایاں کمی ، افراط زر کی شرح کو کم سے کم کرنے ، قیمتوں میں استحکام ، نجی شعبہ کو فراہم کردہ قرضوں کی شرح میں نمایاں اضافہ ، پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام ( پی ایس ڈی پی) کے اخراجات میں نمایاں اضافہ ، موثر مالیاتی پالیسی اور مالیاتی نظم وضبط کے باعث بجٹ خسارہ میں نمایاں کمی واقع ہوئی، کئی بین الاقوامی اداروں نے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ میں نمایاں بہتری کی ہے بعض عناصر مخصوص اعدادوشمار بارے غلط پراپیگنڈہ کرکے عوام اور قارئین کو گمراہ کر رہے ہیں ، ترجمان رواں مالی سال میں جولائی اور اگست کے دوران براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کی شرح میں 154.9 فیصد کا نمایاں اضافہ ہوا ہے ، فنانس ڈویژن

ہفتہ 23 ستمبر 2017 14:30

ترجمان فنانس ڈویژن نے وزیر خزانہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار کے دور میں ’’ ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 23 ستمبر2017ء) فنانس ڈویژن کے ترجمان نے وزیر خزانہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار کے دور میں ’’ پاکستان پر قرضوں کے بوجھ ‘‘ کے حوالے سے چھپنے والی خبروں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ گزشتہ چار سال کے دوران موجودہ حکومت نے شاندار اقتصادی کامیابیاں حاصل کی ہیں جبکہ قومی معیشت کا حجم 2013ء کے 225 ارب ڈالر کے مقابلہ میں 2017ء میں 304 ارب ڈالر تک بڑھ چکا ہے اور اس دوران قومی معیشت کی سالانہ اوسط شرح نمو 35 فیصد رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ قومی معیشت کی ترقی اور کامیابی موجودہ حکومت کی دانشمندانہ اقتصادی پالیسیوں کا نتیجہ ہے ، شرح سود میں نمایاں کمی ، افراط زر کی شرح کو کم سے کم کرنے ، قیمتوں میں استحکام ، نجی شعبہ کو فراہم کردہ قرضوں کی شرح میں نمایاں اضافہ ، پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام ( پی ایس ڈی پی) کے اخراجات میں نمایاں اضافہ ، موثر مالیاتی پالیسی اور مالیاتی نظم وضبط کے باعث بجٹ خسارہ میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔

(جاری ہے)

2013ء میں بجٹ خسارہ 8.2 فیصد تھا جو 2017ء میں 5.8 فیصد تک کم ہو چکا ہے۔ ان تمام مثبت تبدیلیوں کے باوجود بعض عناصر قومی معیشت کے حوالے سے مخصوص اعدادوشمار کے بارے میں پراپیگنڈہ کرکے عوام اور قارئین کو گمراہ کر رہے ہیں اور اپنے مذموم مقاصد کے حصول کیلئے قومی معیشت کی درست صورتحال پیش نہیں کرتے۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا میں شائع کی جانے والی رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے مجموعی قرضوں میں 25.1 ٹریلین روپے کا اضافہ ہوا ہے۔

مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان کے مجموعی بیرونی قرضوں کا حجم مالی سال 2016-17ء کے اختتام پر 83 ارب ڈالر تک بڑھ چکا ہے اور قرضوں اور سود کی ادائیگی کے حوالے سے 8.2 ارب ڈالر کے اخراجات کئے جا رہے ہیں۔ شائع کی جانے والی رپورٹ میں مزید تنقید کی جاتی ہے کہ مالیاتی نظم وضبط کے حوالے سے قانون پر موثر عملدرآمد بھی نہیں کیا جا رہا اور گزشتہ چار برسوں میں حاصل ہونے والی اقتصادی کامیابیوں سے چشم پوشی کی جاتی ہے۔

ترجمان نے کہا کہ بعض اخباروں نے خبروں اور رپورٹس کی اشاعت کیلئے استعمال کئے جانے والے اعدادوشمار میں ہیرا پھیری کی جا رہی ہے اور عوام الناس کو گمراہ کرنے کی مذموم سازش کی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جون 2017ء کے اختتام پر حکومت کے قرضے 19.6 ٹریلین روپے ہیں جبکہ اخباروں میں کہا جارہا ہے کہ قرضوں کا حجم 25.1 ٹریلین روپے ہیں۔ مزید برآں مجموعی قومی پیداوار کے حوالے سے قرضوں کے اعدادوشمار میں بھی غلط بیانی کی جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جی ڈی پی کے حوالے سے 2013ء میں قرضوں کا جم 60.2 فیصد تھا جو 2017ء میں 61.6 فیصد رہا ہے۔ آئی ایم ایف کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گزشتہ چار برسوں کے دوران بین الاقوامی قرضوں کی جی ڈی پی کے تناسب سے شرح میں صرف 8 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح اخبارات میں شائع کی جانے والی خبروں کے مطابق کہا جاتا ہے کہ جون 2017ء کے اختتام پر عالمی قرضوں کا حجم 82.7 ارب ڈالر تک بڑھ چکا ہے جبکہ بیرونی قرضوں کا مجموعی حجم 62.5 ارب ڈالر ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایکسٹرنل پبلک قرضوں میں 14.4 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے اور یہ قرضے 48.1 ارب ڈالر سے 62.5 ارب ڈالر ہیں جبکہ نان پبلک قرضوں میں 7.3 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات غلط ہے کہ پاکستان کا فی کس قرضہ 1 لاکھ 20 ہزار 381 روپے تک بڑھ چکا ہے۔ فنانس ڈویژن کے ترجمان نے مزید کہا کہ شائع کی جانے والی خبروں میں غلط دعوے کئے جا رہے ہیں کہ حکومت نیفسکل ریسپانسبلٹی اینڈ ڈیٹ لمی ٹیشن (ایف آر ڈی ایل ) ایکٹ 2005ء میں ترمیم کی ہے تاکہ بیرون قرضوں کے بوجھ کو کم کیا جاسکے۔

انہوں نے کہا کہ درحقیقت ایف آر ڈی ایل ایکٹ کے بعض حصے متروک ہو چکے ہیں اور موجودہ حکومت نہ صرف ان حصوں کو دوبارہ آئینی شکل دے رہی ہے بلکہ ملک کی معاشی صورتحال کے مطابق مالیاتی نظم وضبط کی بہتری کیلئے جامع اقدامات کررہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات انتہائی اہم ہے کہ حکومت ملک میں مالیاتی نظم وضبط اور قرضوں کے بوجھ کو کم کرنے کیلئے کام کررہی ہے۔

ترجمان نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اخبارات میں شائع کی جانے والی خبروں میں کہا گیا ہے کہ قرضوں کے حجم کو جی ڈی پی کے 60 فیصد تک رکھنے کے قانون کی بھی خلاف ورزی کی جا رہی ہے جو سراسر غلط ہے۔ انہوں نے کہا کہ قرضوں کا حجم جی ڈی پی کے 60 فیصد کے مساوی رکھنے کے حوالے سے ایف آر ڈی ایل ایکٹ میں جون 2018ء کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت ایکٹ کی کسی قسم کی خلاف ورزی نہیں کررہی جبکہ حکومت نے ملک میں معاشی استحکام کے حوالے سے 15 سالہ حکمت عملی مرتب کی ہے تاکہ سال 2032 ء تک ملک پر قرضوں کے مجموعی بوجھ کو جی ڈی پی کے 60 فیصد سے 50 فیصد تک کم کیا جاسکے۔

انہوں نے کہا کہ خبروں میں اس بات کو مسلسل نظر انداز کیا جارہا ہے کہ پاکستان کے معاشی اشاریوں کی عالمی ادارے بھی تصدیق کرتے ہیں اور کئی بین الاقوامی اداروں نے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ میں نمایاں بہتری کی ہے، قومی معیشت کی بعض نمایاں خصوصیات پر روشنی ڈالتے ہوئے ترجمان نے کہا کہ جی ڈی پی کی شرح نمو اور توانائی کی فراہمی کی صورتحال میں گزشتہ چار سال کے دوران نمایاں بہتری ہوئی ہے اور مالی سال 2017ء میں جی ڈی پی کی شرح نمو 5.3 فیصد تک بڑھی ہے اور قومی معیشت کی ترقی میں زراعت ، صنعت اور خدمات کے شعبوں سمیت دیگر شعبوں نے بھرپور مدد دی ہے۔

بڑے صنعتی اداروں ( ایل ایس ایم ) کے شعبہ کی کارکردگی پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا کہ لمبے عرصے کیلئے قرضوں کی فراہمی کی شرح 11.4 فیصد سے 6 فیصد تک کم ہو چکی ہے جبکہ ایل ایس ایم کے شعبہ نے گزشتہ مالی سال 2017ء کے دوران 5.6 فیصد کی شرح نمو حاصل کی ہے اور ترقی کا یہ عمل رواں مالی سال میں بھی جاری ہے اور جولائی 2018ء کے دوران شعبہ کی شرح ترقی 12.98 فیصد ریکارڈ کی گئی ہے جبکہ گزشتہ مالی سال کے اسی عرصہ کے دوران ایل ایس ایم کے شعبہ کی شرح نمو 1.72 فیصد رہی تھی۔

نجی شعبہ کو قرضوں کے حوالہ سے فنانس ڈویژن کے ترجمان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ مالی سال 2013ء میں شعبہ کو 7.6 ارب روپے کے قرضے فراہم کئے گئے تھے جو گزشتہ مالی سال کے اختتام پر 747.9 ارب روپے تک بڑھ چکے ہیں۔ کاروباری صورتحال کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ملک میں کاروباری آسانیوں اور کاروباری برادری کی سہولتوں کے حوالے سے حکومت نے شرح سود میں تاریخی کمی کی ہے اور اس کے علاوہ بنیادی ڈھانچے پر ہونے والے اخراجات میں نمایاں اضافہ کیا ہے جس کے نتیجے میں ملک میں کاروباری وصنعتی سرگرمیوں کو فروغ حاصل ہوا ہے۔

افراط زر کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ مالی سال2017ء میں مسلسل تیسرے سال افراط زر کی شرح کو ہدف سے کم رکھا گیا ہے اور کئی دہائیوں کے بعد مالی سال 2016ء کے بعد افراط زر کی شرح 2.9 فیصد تک کم ہو گئی ۔ انہوں نے کہا کہ رواں مالی سال میں جولائی اور اگست کے دوران افراط زر کی شرح 3.16 فیصد ریکارڈ کی گئی ہے جبکہ گزشتہ مالی سال کے دوران یہ شرح 3.84 فیصد تھی۔

انہوں نے کہا کہ رواں مالی سال کے دوران افراط زر کی شرح کا ہدف چھ فیصد کے مقابلے میں کم رکھنے کے حوالے سے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ ٹیکس محصولات کے بارے میں انہوں نے کہا کہ گزشتہ مالی سال کے دوران ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح 12.5 فیصد تک بڑھ گئی جبکہ مالی سال 2013ء میں یہ شرح 9.8 فیصد تھی۔ ایف بی آر کے ٹیکس محصولات 2013ء کے 1946 ارب روپے کے مقابلے میں مالی سال 2017ء کے دوران 3361 ارب روپے تک بڑھ گئے اور اس طرح ایف بی آر کی ٹیکس وصولیوں میں 73 فیصد کا اضافہ ہوا جبکہ رواں مالی سال 2018 ء میں جولائی اور اگست کے دوران ایف بی آر کی ٹیکس وصولیوں میں 21.5 فیصد کے اضافے سے وصولیوں کا حجم 443.886 ارب روپے تک بڑھ گیا جبکہ گزشتہ مالی سال کے اسی عرصہ کے دوران ایف بی آر نے 365.401 ارب روپے کے ٹیکس اکٹھے کئے تھے۔

ادائیگیوں کے توازن کے حوالے سے فنانس ڈویژن کے ترجمان نے کہاکہ کرنٹ اکائونٹ خسارہ رواں مالی سال میں جولائی اگست کے دوران جی ڈی پی کے 0.76 فیصد یعنی 2.6 ارب ڈالر رہا ہے جبکہ گزشتہ سال کے اسی عرصہ کے دوران یہ شرح 0.42 فیصد تھی۔ انہوں نے کہا کہ ماہانہ بنیادوں پر کرنٹ اکائونٹ کی صورتحال میں بہتری ہوئی ہے اور جولائی کے مقابلے میں اگست 2017ء کے دوران اس میں 73 فیصد بہتری آئی ہے جس کی وجہ برآمدات ، ترسیلات زر اور ملک میں کی جانے والی براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں ہونے والا اضافہ ہے۔

برآمدات کے حوالے سے پاکستان کی کامیابیوں کا حوالہ دیتے ہوئے ترجمان نے کہا کہ حکومت کے موثر اقدامات اور حکمت عملی کے تحت رواں مالی سال کے دوران برآمدات میں اضافہ ہوا ہے اور وزیراعظم کے 180 ارب روپے کے برآمدی پیکج کے نتیجہ میں جولائی اگست 2018ء کے دوران برآمدات میں 17.9 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ترسیلات زر کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ رواں مالی سال میں جولائی اگست کے دوران سمندر پار پاکستانیوں نے 3.496 ارب ڈالر کی ترسیلات کی ہے جبکہ گزشتہ مالی سال کے اسی عرصہ میں 3.089 ارب ڈالر کی ترسیلات کی گئی تھیں۔

اس طرح گزشتہ مالی سال کے مقابلہ میں رواں مالی سال کے دوران ترسیلات زر کی وصولیوں میں 13.18 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ گزشتہ مالی سال کے دوران ملک میں 2.411 ارب ڈالر کی ایف ڈی آئی کی گئی جبکہ مالی سال 2016ء میں 2.305 ارب ڈالر کی براہ راست سرمایہ کاری کی گئی تھی۔ اس طرح مالی سال 2016ء کے مقابلے میں گزشتہ مالی سال کے دوران ایف ڈی آئی کی شرح میں 4.6 فیصد کا اضافہ ہوا ہے جبکہ رواں مالی سال میں جولائی اور اگست کے دوران ایف ڈی آئی کی شرح میں 154.9 فیصد کا نمایاں اضافہ ہوا ہے جس سے ادائیگیوںکے توازن کو بہتر بنانے میں مدد ملی ہے۔