مکمل اور تفصیلی خبر

مسئلہ کشمیر کے منصفانہ اور پرامن حل کیلئے سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عملدرآمد کیلئے اقدامات کئے جائیں، اقوام متحدہ کا خصوصی نمائندہ مقرر کیا جائے، بین الاقوامی برادری صورتحال کو خطرناک ہونے سے بچانے کیلئے فیصلہ کن کردار ادا کرے، بھارتی جرائم کی بین الاقوامی تحقیقات کی جائیں، بھارت کشمیریوں کو دبانے کیلئے طاقت کا اندھا دھند اور بلا امتیاز استعمال کر رہا ہے، بدقسمتی سے اقوام متحدہ کے چارٹر پر عملدرآمد نہیں ہوا، پاکستان کو مشرقی سرحد سے ہمیشہ خطرہ رہا ہے، افغانستان میں گزشتہ 16 سال سے جاری جنگ کا واحد حل مذاکرات ہیں، طالبان کے محفوظ ٹھکانے پاکستان نہیں افغانستان میں ہیں، دہشت گردی ختم کرنے کیلئے اس کی وجوہات ختم کرنا ہوںگی، روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے، روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی بنیادی انسانی اقدار سے متصادم ، ہمارے اجتماعی ضمیر کیلئے چیلنج ہے ، پاکستان کی معیشت میں گزشتہ چار سال کے دوران شاندار بہتری آئی ہے، سی پیک اقتصادی ترقی کے لئے مزید اہم کردار ادا کرے گا وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 72 ویں اجلاس سے خطاب

جمعہ 22 ستمبر 2017 16:40

اقوام متحدہ ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 22 ستمبر2017ء) پاکستان نے کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عملدرآمد کیلئے اقدامات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے منصفانہ اور پرامن حل کیلئے اقوام متحدہ کا خصوصی نمائندہ مقرر کیا جائے، بین الاقوامی برادری صورتحال کو خطرناک ہونے سے بچانے کیلئے فیصلہ کن کردار ادا کرے۔

وزیراعظم شاہدخاقان عباسی نے بھارت کے زیر قبضہ کشمیر میں اپنے حق خودارادیت کے حصول کیلئے جدوجہد کرنے والے نہتے عوام پر مظالم پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کشمیریوں کو دبانے کیلئے طاقت کا اندھا دھند اور بلا امتیاز استعمال کر رہا ہے، خواتین، بچوں اور نوجوانوں کو بلاامتیاز نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

(جاری ہے)

ہزاروں کی تعداد میں معصوم کشمیری مارے اور زخمی کئے جا چکے ہیں۔

شارٹ گن پیلٹ سے بچوں سمیت ہزاروں کی تعداد میں کشمیری اپنی بینائی سے محروم یا معذور ہو چکے ہیں۔ یہ اور اس طرح کے دیگر مظالم جنیوا کنونشن کی خلاف ورزی اور جنگی جرائم کے زمرہ میں آتے ہیں۔ وزیراعظم نے اپنے خطاب میں جنگ سے تباہ حال افغانستان میں امن کیلئے پاکستانی خواہش، پاکستان کی انسداد دہشت گردی کیلئے کوششوں اور قربانیوں، مشرق وسطیٰ میں صورتحال، اقوام متحدہ میں اصلاحات، ماحولیاتی تبدیلی، پاکستان میں جمہوریت اور معاشی استحکام پر بھی اظہار خیال کیا۔

انہوں نے ہمسایوں کے ساتھ امن کے ساتھ رہنے کی پاکستانی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ کشمیر سمیت تمام دیرینہ تنازعات کے حل کیلئے جامع مذاکرات کی بحالی اور امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے کیلئے اقدامات پر بات چیت کا خواہاں ہے تاہم انہوں نے کہا کہ ان مذاکرات کیلئے بھارت کو پاکستان کے خلاف ریاستی پشت پناہی سے کی جانے والی دہشت گردی بشمول ہماری مغربی سرحد کے پار سے کی جانے والی دہشت گردی اور بھارت کی طرف سے پاکستان کے خلاف تخریب کاری کی مہم سے اجتناب کرنا ہو گا۔

کشمیر کی صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شریک دنیابھر کے اعلیٰ سطحی وفود کو بتایا کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کو ان کے حق خودارادیت سے محروم کرنے اور جدوجہد آزادی کو دبانے کیلئے 7 لاکھ فوج تعینات کر رکھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ تاریخ میں کسی بھی غیر ملکی فوج کی طرف سے تعینات کی جانے والی یہ سب سے بڑی تعداد ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج کشمیری عوام بھارت کے تسلط سے آزاد ہونے کیلئے ایک تاریخی اور مقبول جدوجہد کر رہے ہیں۔ جمعرات کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 72 ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ بدقمستی سے اپنے قیام کے روز اول سے پاکستان کو اپنی مشرقی سرحد سے مسلسل دشمنی کا سامنا رہا ہے، بھارت ہمیشہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل متفقہ قراردادوں پرعملدرآمد سے انکار کرتا ہے جو اقوام متحدہ کوجموں وکشمیرکے عوام کو آزادانہ طور پر اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کیلئے استصواب رائے کی نگرانی کا اختیار دیتا ہے اس کی بجائے بھارت نے مقبوضہ کشمیرمیں کشمیریوں کے اپنے جائز حق خود ارادیت کے حصول کیلئے منصفانہ جدوجہد کو دبانے کیلئے 7 لاکھ کے قریب افواج تعینات کررکھی ہے، یہ حالیہ تاریخ میں بد ترین غیرملکی فوجی قبضہ ہے ماضی کی طرح آج بھی کشمیری عوام بھارتی جابرانہ حکمرانی سے نجات حاصل کرنے کیلئے جرأت مندانہ اورمقبول جدوجہد کررہے ہیں، وہ روزانہ گلیوں اورسڑکوں پرنکلتے ہیں اوربھارت سے کشمیرچھوڑنے کا مطالبہ کرتے ہیں، بھارت نے بچوں،خواتین اورنوجوانوںپر اندھا دھند فائرنگ کرتے ہوئے کشمیریوں کو دبانے کیلئے طاقت کے بڑے پیمانے پر اور اندھا دھنداستعمال سے اس کا جواب دیا ہے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں سینکڑوں معصوم کشمیری شہید اور زخمی ہو چکے ہیں۔ شاٹ گن پیلٹ سے بچوں سمیت ہزاروں کشمیریوں کو بینائی سے محروم اور معذور کیا گیا ہے یہ اور اس طرح کے دیگر مظالم واضح طور پر جنگی جرائم اور جنیوا کنویشن کی خلاف ورزی ہیں۔ پاکستان کشمیر میں بھارتی جرائم کی بین الاقوامی تحقیقات کا مطالبہ کرتا ہے۔ہم اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری اور ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق سے مطالبہ کرتے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی نوعیت اور سنگینی کی تصدیق‘ ذمہ داران کو سزا اور متاثرین کو انصاف و ریلیف دینے کے سلسلے میں ایک انکوائری کمیشن مقبوضہ کشمیر بھیجا جائے۔

پاکستان بین الاقوامی برادری پر زور دیتا ہے کہ وہ بھارت کو مقبوضہ کشمیر میں غیر مسلح مظاہرین پر پیلٹ گن کے حملوں و تشدد اور ریپ کو ریاستی پالیسی کے آلہ کے طور پر استعمال کرنے سے روکے‘ میڈیا بلیک آئوٹ ختم کرے ‘ اپنے ایمرجنسی قوانین کو منسوخ کرے اور تمام کشمیری سیاسی راہنمائوں کو رہا کرے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت اپنے مظالم سے دنیا کی توجہ ہٹانے کے لئے کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر سیزفائر کی مسلسل خلاف ورزیاں کرتا ہے۔

رواں سال جنوری سے 600 سے زائد خلاف ورزیوں کے باوجود پاکستان نے تحمل کا مظاہرہ کیا ہے ۔ لیکن اگر بھارت لائن آف کنٹرول پر مہم جوئی یا پاکستان کے خلاف اپنے محدود جنگ کے ڈاکٹرائن پر عمل کرتا ہے تو اس کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔بین الاقوامی برادری کو صورتحال کو خطرناک کشیدگی میں بدلنے سے روکنے کے لئے فیصلہ کن کردار ادا کرنا چاہئے۔ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کو منصفانہ وپرامن انداز اور مستعدی کے ساتھ حل کیا جانا چاہئے۔

جیسا کہ بھارت پاکستان کے ساتھ امن عمل کو بحال نہیں کرنا چاہتا ہم سکیورٹی کونسل سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ جموں و کشمیر پر اپنی قرار دادوں پر عملدرآمد کے سلسلے میں اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔اس سلسلے میں اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری کو کشمیر بارے اپنا خصوصی نمائندہ مقرر کرنا چاہئے ۔جس کا مینڈیٹ سکیورٹی کونسل کی دیرینہ لیکن غیر نافذ شدہ قرار دادوں سے اخذ کیا جانا چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ تمام دیرینہ تنازعات بالخصوص مسئلہ کشمیرکے حل کے لئے جامع مذاکرات کو بحال کرنے اور امن و سلامتی کو برقرار رکھنے کے اقدامات پر بات چیت کرنے کے لئے تیار ہے۔ان مذاکرات کے ساتھ ساتھ بھارت کی جانب سے پاکستان کے خلاف ہماری مغربی سرحد کے پار سے تخریب کاری کی مہم اور ریاستی سرپرستی میں دہشت گردی کا خاتمہ ہونا چاہئے۔

وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ افغانستان کے عوام کے علاوہ پاکستان اور اس کے عوام بھی گزشتہ چار دہائیوں سے بیرونی مداخلت اور خانہ جنگیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ ان جنگوں نے انتہاء پسندوں و دہشت گردوں ‘ بندوقوں اور منشیات کے ساتھ ساتھ لاکھوں مہاجرین کی آمد کے ذریعے ہمارے ملک کو بری طرح متاثرہ کیا ہے۔انہوں نے کئی عشروں سے ہماری اقتصادی ترقی کو نقصان پہنچایا ہے۔

حتیٰ کہ پاکستان آج بھی30لاکھ افغان پناہ گزینوں کی میزبانی کررہاہے، پاکستان سے زیادہ کوئی بھی افغانستان میں امن کا خواہش مند نہیں ہوسکتا۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں 16 سال سے جاری جنگ کے تناظر میں یہ بات واضح ہے کہ صرف فوجی طاقت کے استعمال سے امن کا قیام ممکن نہیں، کابل حکومت اوراتحادی اورنہ ہی طالبان ایک دوسرے پر فوجی حل تھوپ سکتے ہیں، بین الاقوامی برادری اقوام متحدہ کی مختلف قراردادوں کی صورت میں اس نتیجے پر پہنچ سکی ہیںکہ صرف مذاکرات کے ذریعے سے ہی افغانستان میں امن قائم کیا جاسکتا ہے۔

دہشت گردی سے متاثر ہونے اوردہشت گردی کے خلاف عالمگیر مہم میں اپنے کردار کی وجہ سے بہت زیادہ نقصان پہنچنے کے باوجود افغانستان میں فوجی یا سیاسی تعطل کیلئے پاکستان کوذمہ دارٹھہریا جانا ہمارے لئے تکلیف دہ امرہے۔ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ہم کسی کیلئے قربانی کا بکرابننے کوتیارنہیں، طالبان کی محفوظ پناہ گاہیں پاکستان میں نہیں بلکہ افغانستان کی ان وسیع وعریض گزرگاہوں میں ہیں جہاں طالبان کا کنٹرول ہے۔

ہاں سرحد پارحملے ہوتے رہتے ہیں، تمام سرحد پارحملوں کی روک تھام کیلئے ہم افغانستان کی حکومت اورکولیشن سے کہتے ہیں کہ وہ سرحدی کنٹرول کو مضبوط بنانے اورہرقسم کی نقل وحمل کی نگرانی کیلئے پاکستان کی جاری کوششوں کا اعتراف اورحمایت کرے ، پاکستان اپنی سرزمین پر افغان جنگ نہیں لڑسکتا، یہ چیز پاکستان نہیں کرسکتا، نہ ہی ہم افغانستان، پاکستان اوردیگر علاقائی ممالک کے عوام کے مصائب اورمشکلات میں اضافہ کرنے والی ناکام حکمت عملی کی توثیق کرسکتے ہیں ۔

وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ پاکستان اس بات پر یقین رکھتاہے کہ افغانستان میں فوری اورحقیقی اہداف یہ ہونے چاہئیں، نمبر ایک، افغانستان سے داعش، القاعدہ اورتحریک طالبان پاکستان اورجماعت الاحرارسمیت اتحادی تنظیموں،جنہیں حال ہی میں سلامتی کونسل نے دہشت گرد تنظیمیں قراد دیا ہے، کے خاتمے کیلئے مشترکہ اورمربوط کوششیں کرنا۔

نمبر دو،کابل اورافغان طالبان کے درمیان مذاکرات کے فروغ کیلئے چارفریقی گروپ یا کسی اورسہ جہتی فارمیٹ کے ذریعے افغانستان کے مسئلے کا پرامن حل نکالنا۔یہ دواقدامات افغانستان اورخطے میں امن کی بحالی اوراستحکام کیلئے بہترین امکانات فراہم کرسکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ انسداد دہشت گردی کیلئے پاکستان کی کوششوں پر کوئی سوال نہیں اٹھاسکتا، نائن الیون کے بعد یہ پاکستان ہی کوششیں تھیں جن کی وجہ سے القاعدہ کا شیرازہ بکھرگیا، پاکستان کی فوجی کارروائیوں کی وجہ سے قبائلی علاقوں کوتقریباً تمام عسکری گروپوں سے پاک کیاگیا، ہم یہ جنگ دہشت گردوں تک لے گئے، اس کی ہم نے بھاری قیمت چکائی،دہشت گردوں نے ہمارے 6500 سکیورٹی وقانون نافذ کرنے والے اہلکاروں سمیت 27 ہزار سے زیادہ پاکستانی شہریوں کو شہیداور50 ہزار سے زیادہ کوزخمی کیا، جن میں سے 15ہزارسکیورٹی اہلکارشامل ہیں، ان میں سے کئی معذورہوچکے ہیں۔

وزیر اعظم نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہم نے اپنے وسائل سے لڑی ہے، پاکستان کے اقتصادی نقصانات کا تخمینہ 120 ارب ڈالر سے زیادہ ہے، اس کے باوجود ہم دہشت گردی اورانتہاپسندی کے خلاف قومی ایکشن پلان کے نٖفاذ میں مکمل پرعزم ہیں۔دہشت گردوں کے تشدد کوختم کرنے کیلئے تیزترسماجی اوراقتصادی ترقی کو زیادہ سے زیادہ ترجیح دینا ہوگی۔ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ دہشت گردی اب ایک عالمگیر مظہرہے جس سے جامع انداز میں نمٹنا ہوگا، ہمارے خیال میں دہشت گردی کے خلاف عالمگیرحکمت عملی میں دو خامیاں موجود ہیں، اول، بین الاقوامی برادری ریاستی سرپرستی وحمایت سے ہونے والی دہشت گردی کا مسئلہ حل کرنے میں ناکام ہوگئی ہے، یہ افراتفری پھیلانے والے اوربالادستی کے خواہش مندوں کا پسندیدہ ہتھیارہے، ریاستی دہشت گردی کے خاتمہ ، اس کی مذمت اورسزاء کے بغیر کئی خطوں میں استحکام کویقینی نہیں بنایا جاسکتا۔

دوئم، دہشت گردی کے خاتمے کیلئے اس کی بنیادی وجوہات کی بیخ کنی ضروری ہے ، صرف غربت اورجہالت دہشت گردی کی بنیادی وجوہات نہیں، دہشت گردی بیرونی مداخلت، جارحیت اورناانصافی سمیت حقیقی یا اختراعی سیاسی فہم کا انتہاپسندانہ ردعمل ہے، جب تک ان بنیادی وجوہات کا ازالہ نہیں کیا جاتا اس وقت تک دہشت گردگروپوں کے توڑ مروڑ کر پیش کیے گئے بیانیہ کا سدباب ممکن نہیں۔

وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ایک ہمسایہ ملک کے مخاصمانہ رویہ اور جنگی اسلحہ کے ڈھیر جمع کرنے کے جنون نے پاکستان کیلئے قابل اعتماد دفاعی صلاحیت برقراررکھنا مجبوری بنا دیا ہے، میرے ملک نے جوہری ہتھیار اس وقت تیارکئے جب یہ ہمارے پڑوسی نے خطے میں یہ ہتھیار متعارف کرائے، ہمارے تزویراتی اثاثے بارہا جارحیت کی دھمکیوں کے تناظر میں اہمیت کے حامل ہیں، ہمارے تزویراتی اثاثے سخت اورموثرکنڑول میں ہیں جس کا ماہرین نے بڑے پیمانے پر اعتراف کیاہے، جوہری تخفیف کے بین الاقوامی انتظامات جیسے کہ نیوکلیئرسپلائیرگروپ میں پاکستان کی بلاامتیاز شمولیت سے عالمی برادری کی زیادہ بہتر طریقے سے خدمت کی جاسکتی ہے ۔

وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ جموں وکشمیر کے عوام کی حق خوداردیت کی جائز جدوجہد کو بھارتی قابض افواج کی جانب سے وحشیانہ انداز میں کچلا جارہا ہے۔ غیرملکیوں سے نفرت اور اسلام فوبیا کی صورت میں ابھرتی ہوئی نسل پرستی اور مذہبی منافرت اقوام اورافراد کے درمیان عملاً دیواریں اور نفسیاتی رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہیں حالانکہ دنیا تیزی سے باہمی انحصار کی جانب بڑھ رہی ہے۔

روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی نہ صرف تمام انسانی قدروں کی پامالی ہے بلکہ ہمارے اجتماعی ضمیر کو بھی جھنجھوڑتی ہے جبکہ دنیا میں عالمی نظام کے ستون کھوکھلے ہو رہے ہیں۔ غربت، بیماری، موسمیاتی تبدیلی، جوہری پھیلائو، دہشت گردی اور زبردستی بیدخلی سے نمٹنے کے بین الاقوامی تقاضا زور پکڑرہا ہے۔ آج ہمیں اس امر کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے کہ اقوام متحدہ امن ‘ سلامتی اور ترقی کے وسیع تر چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے ناگزیر عالمی تعاون کے لئے حدود کار ‘ دائرہ عمل اور پلیٹ فارم مہیا کرے۔

پاکستان امن و سلامتی ‘ ترقی و انتظام میں اقوام متحدہ کی صلاحیتوں کو ازسرنو تقویت دینے کے لئے سیکرٹری جنرل انتونیو گوترس کی طرف سے شروع کردہ کاوشوں کا خیر مقدم کرتا ہے۔ ہم ان اصلاحات کے لئے بھی پرعزم ہیں جو سلامتی کونسل کو طاقت ور اور مرعات یافتہ توسیعی کلب بنانے کی بجائے زیادہ نمائندہ ‘ جمہوری اور جوابدہ ادارہ بناتی ہو۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے گزشتہ ماہ اپنی آزادی کی 70 ویں سالگرہ منائی۔

یہ مہینہ اقوام متحدہ میں پاکستان کی 70 ویں سالگرہ کا ہے۔ پاکستان کی اقوام متحدہ کے اصولوں سے وابستگی ان اقدامات اور خدمات میں اس کے تعمیری کردار کے طویل ریکارڈ سے عیاں ہے جس نے اس عالمی ادارے میں ترک نو آبادیات ‘ ترقی ‘ تجارت ‘ بین الاقوامی قانون‘ انسانی حقوق ‘ مہاجرین ‘ امن کاوشوں ‘ سلامتی ‘ تخفیف اسلحہ اور اقوام متحدہ کے بجٹ اور انتظام کے بارے میں فیصلوں اور لائحہ عمل کو متشکل کیا۔

پاکستان اقوام متحدہ کی قیام امن سرگرمیوں میں دنیا میں سب سے زیادہ فوجی دستے فراہم کرنے والے ممالک میں سے ایک ہے۔ ہم قیام امن میں پیش پیش رہے ہیں گے اور اپنے سلامتی چیلنجوں کے باوجود اقوام متحدہ کے لئے پروفیشنل اور نہایت تربیت یافتہ اہلکاروں کی پیش کش جاری رکھیں گے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ اقوام عالم کی اکثریت کی جانب سے اقوام متحدہ کے منشور کے اختیار کے ماسوا طاقت کا استعمال یا ایسا کرنے کی دھمکی سے گریز کے طرز عملکی بنیاد پر 70 سے زائد برس کے عرصہ سے سرد جنگ، جوہری ہتھیاروں کی دوڑ اور متعدد علاقائی تنازعات کے باوجود کرہ ارض عالمی انتشار سے بچا رہا ہے مگر بدقسمتی سے نئے ہزاریے کے دوران اقوام متحدہ کے منشور میں درج اصولوں کو بتدریج کمزور کیاگیا۔

حالیہ برسوں میں بعض ممالک نے یکطرفہ طورپر طاقت کے استعمال کا سہارا لینے کے بڑھتے ہوئے رجحان اور دیگر ریاستوں کے خلاف مداخلت کا مظاہرہ کیا ہے۔ ایک بار پھر بین الریاستی تنازعات اور اختلافات سے نبردآزما ہونے میں جبر اور دھمکیاں بنیادی حربے کے طور پر رونما ہوئی ہیں۔ مشرق ومغرب میں ازسرنو تنائو سے ایک اور سرد جنگ یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔

ایشیا میں امن وخوشحالی کو بڑی قوتوں میں ابھرتے ہوئی کشمکش اور جنوب، مشرقی اور مغربی ایشیا میں بڑھتی ہوئی کشیدگیوں سے خطرہ لاحق ہے۔ مشرق وسطیٰ، شام، عراق، یمن سمیت دیگر مقامات پر جنگ وجدل سے تباہ حال ہے۔ اگرچہ عراق اور شام میں داعش کمزور ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے تاہم مشرق وسطیٰ، افریقہ اور دنیا کے دیگر حصوں میں دہشت گردی پھیلی اور اس میں شدت آئی ہے۔

فلسطین کے المیے کا کوئی اختتام نظرنہیں آتا۔ اسرائیل کا مسلسل قبضہ اور غیرقانونی آبادکاری میں توسیع سے ارض مقدس میں ازسر نوتشدد کی لہر اٹھی اور اس کا دائرہ وسیع ہوا ہے۔ شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ اقوام متحدہ کے اصولوں سے ہماری وابستگی ہمارے بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناحؒ کے اس اعلان سے ماخوذ ہے جس میں انہوں نے فرمایا’’ ہماری خارجہ پالیسی تمام اقوام عالم کے حوالے سے دوستی اورخیرسگالی کی ہے‘‘ ۔

انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلی بنی نوع انسان کے مستقبل کیلئے ایک نیا اورحقیقی خطرہ ہے، انتہائی ماحولیاتی تبدیلیوں کے واقعات میں کئی گنا اضافہ ہورہاہے،ٹیکساس میں سیلاب، نیپال اورسرالیون میں مٹی کے تودے گرنا، کیربئین اورپورٹوریکو میں تباہی، ہمالیہ میں واقع گلیشئیروں کا زیادہ تیزی سے پگھلنا جیسے واقعات ان ماحولیاتی تبدیلیوں کا نتیجہ ہے جوبلاامتیازپوری دنیاء میں رونماء ہورہے ہیں، ماحولیاتی تبدیلیوں کے خطرات سے دوچار ملک ہونے کی حیثیت سے ہم پیرس معاہدہ کے اہداف اور مقاصد کی تکمیل کیلئے مشترکہ اقدامات اور نمو اور ترقی کیلئے ایک نئے اورماحول دوست ماڈل کے قیام پر پر یقین رکھتے ہیں کیونکہ ایسا کرنا ہمارے مشترکہ مفاد میں ہے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ ترقی پذیر ممالک کیلئے بڑہوتری و ترقی بدستور بنیادی اہداف ہیں،پائیدارترقی کے اہداف کیلئے اقوام متحدہ کا ایجنڈاتاریخ میں سب سے زیادہ اولولعزمی پرمبنی ترقیاتی ایجنڈا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں، تحفظ کے بڑھتے ہوئے احساس، بین الاقوامی تعاون اور باہمی تضادات کے باعث ترقی ہمارے لئے زیادہ اہمیت اختیار کرتی جا رہی ہے۔

مشترکہ نموکے نظریہ کے تحت چین کے صدر ژی جن پنگ کا ایک سڑک اور خطہ کا اقدام جنوبی ایشیا کے ممالک میں باہمی تعاون اور پائیدار ترقی و خوشحالی کو فروغ دے گا۔ پاکستانی معیشت نے گذشتہ چار سال کے دوران نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ (سی پیک) کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ منصوبہ ہماری معاشی ترقی میں مزید معاون ثابت ہوگا۔

اس سے توانائی اور ٹرانسپورٹ کے شعبوں کے علاوہ دیگر مختلف شعبہ جات میں چین اور پاکستان کی شراکت داری میں مزید اضافہ ہوگا۔ ایک سڑک ایک خطہ کے اقدام کے تحت پاکستان کی معیشت کی ترقی کے لئے مضبوط مواقع دستیاب ہوں گے۔ پاکستان کی آبادی 207 ملین افراد پر مشتمل ہے جن میں سے زیادہ تر تعداد نوجوانوں کی ہے، لوگوں کی آمدنیوں میں اضافہ، اخراجات اور پیداوار کے فروغ سے پاکستان معاشی ترقی کے راستے پر گامزن ہوگا۔

وزیر اعظم نے کہا کہ اپنے عوام کے لئے بنیادی اہمیت کے ان اہداف کے حصول کے لئے پاکستان نہ صرف اپنے ملک میں بلکہ اپنی سرحدوں اور ہمسایہ ممالک میں بھی امن و امان کا خواہشمند ہے۔ ہم تمام ممالک کے ساتھ خودمختاری اور مساوات کی بنیاد پر خوشگوار تعلقات چاہتے ہیں۔ ہم دوطرفہ تعاون اور دوستی کی ہر پیشکش کا مثبت جواب دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم تاریخ کے ایک اہم موڑ پر کھڑے ہیں اور ورلڈ آرڈر جس کے تحت دنیا گذشتہ 70 سالوں سے عالمی جنگ سے محفوظ ہے تاہم ترقی پذیر ممالک میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں انقلابی تبدیلیوں، بین الاقوامی سرمایہ کاری کی استعداد میں اضافہ، پیداوار، تجارت اور صارفین کی بڑھتی ہوئی تعداد، باہمی تعاون کے فروغ سے انسانی تاریخ کے موجودہ مسائل کے خاتمہ میں مدد حاصل کی جا سکتی ہے۔

اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر ہی بین الاقوامی برادری دنیا بھر میں امن و امان اور خوشحالی کیلئے مشترکہ سوچ کے ہمارے وژن کو حاصل کرنے کے مواقع سے مستفید ہو سکتی ہے۔ قبل ازیں اپنے خطاب کے آغاز میںوزیر اعظم نے مائرو سلاف لاجیک کو جنرل اسمبلی کے 72ویں اجلاس کے صدر کی حیثیت سے ان کے انتخاب پر مبارکباد پیش کرتے ہوہوئے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ خدمات عامہ اور بین الاقوامی تعلقات میں ان کا طویل تجربہ دنیا کو سلامتی، ترقی اور اسلوب حکمرانی کے درپیش چیلنجوں سے نمٹنے میں اس باوقار اسمبلی کی کامیابی سے رہنمائی میں ایک اثاثہ ثابت ہوگا۔

ajz-atr-tar-mrt-zuh/mhs-jav/hab-msb-mrb 1633 ;@ }خ*…ً$}خ*…ً }خ*…ً$}خ*…ً }خ*…ً})}$`mخ*ی* `mخ*ی*$`mخ*ی* `mخ*ی*$`mخ*ی*("`mخ*ی*×$`mخ*ی*("`mخ*ی*ً$`mخ*ی*("`mخ*ی*&$`mخ*ی*("`mخ*ی* `mخ*ی*$`mخ*ی* `mخ*ی*$`mخ*ی*4 `mخ*ی*$`mخ*ی*۰ `mخ*ی*$`mخ*ی*ژ* `mخ*ی*$`mخ*ی*] `mخ*ی*$`mخ*ی* `mخ*ی*$`mخ*ی*d `mخ*ی*$`mخ*ی*Z `mخ*ی*$`mخ*ی*R `mخ*ی*$`mخ*ی*J `mخ*ی*$`mخ*ی*N `mخ*ی*$`mخ*ی*H `mخ*ی*$`mخ*ی*n `mخ*ی*$`mخ*ی* `mخ*ی*$`mخ*ی*f `mخ*ی*$`mخ*ی*r `mخ*ی*$`mخ*ی*& `mخ*ی*$`mخ*ی*9 `mخ*ی*,$`mخ*ی* `mخ*ی* 222=۰~ہ*xُ*2@۰~ہ*xُ*2@۰~ہ*xُ*2A۰~ہ*xُ*2 ;صmLہ*:;tث*ٹ*:ث*(U…ًہ**ہ*TU;@=>T;@nl! ٹ*(>nشp@(شpeث*۶۹ ٹ*eث*ٹf@F{و*چ*حvہ*EFڑ[خ*p,Eخ*?؛ M?؛ Fر*ڑ*ٹ* Fٴ`*ی*{ہ*)*