روہنگیا کے مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے پارلیمانی وفد بنگلہ دیش بھجوایا جائے‘ سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان

بدھ 20 ستمبر 2017 14:32

روہنگیا کے مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے پارلیمانی وفد بنگلہ ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 20 ستمبر2017ء) سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ روہنگیا کے مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے پارلیمانی وفد بنگلہ دیش بھجوایا جائے‘ روہنگیا مسلمان پناہ گزینوں کیلئے امدادی فنڈ قائم کیا جائے‘ امریکہ کی جانب سے ڈرون حملوں پر مذمتی بیان آنا چاہیے تھا‘ برطانوی پارلیمنٹ کے قائد حزب اختلاف کے پاکستان کے حوالے سے بیان پر سپیکر کی جانب سے شکریہ کا خط ارسال کیا جائے۔

بدھ کو قومی اسمبلی میں میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے حوالے سے بحث میں حصہ لیتے ہوئے سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ برطانیہ کے قائد حزب اختلاف نے گزشتہ دنوں پاکستان کے حوالے سے اہم بیان دیا ہے، اتنی کاوشوں کے باوجود دنیا میں ہمارے دوست بہت کم ہیں، مغرب میں پاکستان کے موقف کی تائید کرنا اہم بات ہے، جرمی کارنی نے دنیا سے کہا ہے کہ وہ پاکستان کی قربانیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کی عزت کریں۔

(جاری ہے)

چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ اس ایوان کی طرف سے حکومت اور اپوزیشن مل کر ایک خط کے ذریعے جرمی کارمی کا شکریہ ادا کیا جائے، خط سپیکر کی طرف سے ہو اور ہمارے برطانیہ میں ہائی کمشنر یہ خط انہیں پہنچائیں۔ انہوں نے کہا کہ ڈرون حملوں کے حوالے سے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی قراردادیں موجود ہیں کہ یہ پاکستان کی آزادی اور خودمختاری کے خلاف ہیں، 15 ستمبر کو ہونے والے ڈرون حملے پر حکومت کی طرف سے مذمت یا ناپسندیدگی کا اظہار بھی نہیں کیا گیا۔

واضح قراردادوں کے باوجود اگر ڈرون حملہ ہوتا ہے تو اس کے خلاف آواز بلند ہونی چاہیے اور امریکہ کے ساتھ ہمیں کوئی نیک تمنائوں پر مبنی ملاقاتوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے چین میں برکس کانفرنس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ چین اس کانفرنس کا میزبان ملک تھا، بھارت ایک سال پہلے پاکستان کے خلاف جو قرارداد منظور نہیں کرا سکا، وہ چین میں برکس کانفرنس کے دوران منظور کرائی گئی، ہمارے ذمہ دار سفارتکاروں نے اس حوالے سے ہوم ورک کیوں نہیں کیا۔

وہ کس مرض کی دوا ہیں جو ہماری عزت نفس اور وقار کا تحفظ کیوں نہیں کرسکے ان کی جواب طلبی ہونی چاہیے، ہمارے دوست ملک میں یہ کانفرنس منعقد ہوئی مگر ہمیں اطلاع تک نہیں تھی۔ وزیراعظم نے سفیروں کے ساتھ ملاقات کی جو اچھی بات ہے۔ روہنگیا کے مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ روہنگیا مسلمانوں پر مظالم یہ ایسے واقعات ہیں جو صرف مسلمانوں کے لئے نہیں بلکہ انسانیت کیلئے مقام عبرت ہے۔

حاملہ خواتین اور زندہ مسلمانوں کو کلہاڑیوں کے ذریعے جانوروں کی طرح کاٹا گیا مگر اس کے باوجود دنیا خاموش ہے، ان واقعات میں برما بطور ریاست وہاں کی فوج اور حکومت شامل ہے۔ اس حوالے سے صرف قرارداد کافی نہیں ہے، بطور مسلمان اور انسان ہماری بنیادی ذمہ داری ہے کہ ہم عملی اقدامات اٹھائیں۔ انہوں نے کہا کہ بنیادی حقوق کا پرچار کرنے والے خاموش بیٹھے ہیں، جب مسلمانوں پر ظلم ہوتا ہے تو آواز نہیں اٹھاتے، پاکستان کو او آئی سی کا اجلاس طلب کرنے کا مطالبہ کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے مطالبہ سے قبل ہی او آئی سی کو جاگنا چاہیے تھا، او آئی سی کے وزراء خارجہ کو یک نکاتی ایجنڈے پر بیٹھنا چاہیے۔ انہوں نے تجویز دی کہ ایوان کے دونوں اطراف کے اراکین پر مشتمل ایک پارلیمانی وفد روہنگیا مسلمانوں کے بنگلہ دیش میں قائم پناہ گزین کیمپوں کا دورہ کرے، حکومت کو روہنگیا مسلمانوں کیلئے فنڈ قائم کرنا چاہیے‘ اس کی ابتداء پارلیمنٹرین کے عطیات سے کی جائے، اگر یہ فنڈ قائم ہوا تو پرائیویٹ سیکٹر سے فنڈ آسکتے ہیں۔

اگر او آئی سی کا اجلاس ہوتا ہے تو پاکستان کو اس میں قائدانہ کردار ادا کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ سپیکر تمام مسلمان ممالک‘ سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ‘ آئی پی یو کے سپیکرز اور سیکیورٹی کونسل کے مستقل ارکان کو خطوط لکھیں اور اس ایوان سے منظور ہونے والی قرارداد بھی ارسال کی جائے۔ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو یک آواز ہو کر اس حوالے سے بات کرنی چاہیے۔ ڈپٹی سپیکر نے وزیر قانون کو ہدایت کی کہ چوہدری نثار کی طرف سے تجاویز کو عملی جامہ پہنانے کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔