این اے 120 کا الیکشن جیتنے کے بعد مریم نواز کی خود اعتمادی میں اضافہ

مریم نواز پارٹی معاملات میں مزید دلچسپی لینے لگیں، متعدد رہنماؤں کو اپنے لالے پڑ گئے

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین بدھ 20 ستمبر 2017 14:10

لاہور (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 20 ستمبر 2017ء) : این اے 120 کے ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ ن کی جانب سے نامزد اُمیدوار بیگم کلثوم نواز کو جیت نصیب ہوئی ۔ بیگم کلثوم نواز نے 61 ہزار سے زائد ووٹ لے کر این اے 120 کا ضمنی انتخاب اپنے نام کیا ۔ این اے 120 کے ضمنی انتخاب کی جیت میں جس شخصیت کا سب سے بڑا ہاتھ سمجھا جاتا ہے وہ بیگم کلثوم نواز اور سابق نا اہل وزیر اعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز ہیں جنہوں نے اپنی والدہ کی غیر موجودگی میں این اے 120 میں انتخابی مہم چلانے کا بیڑہ اُٹھایا اور کامیاب بھی ہو گئیں۔

خیال رہے کہ مریم نواز کا انتخابی مہم میں حصہ لینے اور وزیر اعلیٰ پنجاب  شہباز شریف اور ان کے بیٹے حمزہ شہباز کا انتخابی مہم سے کنارہ کشی اختیار کرنا کئی سوالات کو جنم دے رہا تھا۔

(جاری ہے)

کئی سیاسی تجزیہ کاروں اور مسلم لیگ ن کے اندرونی دھڑوں نے بھی مریم نواز کو تنقید کا نشانہ بنایا  اور یہاں تک کہ اپنے انٹرویو میں چودھری نثار علی خان نے مریم نواز کو لیڈر ماننے سے انکار کرتے ہوئے انہیں بچہ قرار دے دیا۔

ان تمام اختلافات سے ظاہر تھا کہ مریم نواز کو پارٹی اور خاندان میں بھی کئی مخالفین کا سامنا ہے لیکن انہوں نے انتخابی مہم کو جاری رکھا اور بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ خیر! این اے 120 میں مسلم لیگ ن کی کامیابی کے بعد اب مریم نواز کی خود اعتمادی کو مزید توقیت ملی اور انہوں نے پارٹی کے دیگر معاملات اور اہم امور میں بھی دلچسپی لینا شروع کر دی ہے۔

کچھ ذرائع نے بتایا کہ مریم نواز کی خواہش ہے کہ مسلم لیگ ن کا صدر انہیں بنایا جائے ۔ مریم نواز کی پارٹی میں بڑھتی ہوئی سرگرمیاں اور تمام کنٹرول اپنے ہاتھ میں لینے کی کوششوں پر مسلم لیگ ن میں موجود ان کے ناپسندیدہ رہنماؤں کو اپنی جانوں کے لالے پڑ گئے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ اگر پارٹی کی بھاگ دوڑ مریم نواز کو سونپ دی گئی تو عین ممکن ہے کہ انہیں پارٹی سے نکال دیا جائے یا ان کا سیاسی کیرئیر اس قدر مشکل میں پھنس جائے کہ انہیں مجبوراً پارٹی سے کنارہ کشی اختیار کرنا پڑے ۔

اس وقت بھی مسلم لیگ ن میں دو دھڑے ہیں جن میں سے ایک مریم نواز کا حمایتی ہے جبکہ دوسرا دھڑا چودھری نثار علی خان اور شہباز شریف کا حمایتی ہے۔ البتہ پارٹی کی قیادت اور صدارت مریم نواز کو سونپے جانے کے نتیجے میں پارٹی میں کئی نمایاں تبدیلیاں آنے کا بھی قوی امکان ہے۔ اور اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مریم نواز کو پارٹی کی صدارت سونپنے اور وزیر اعلیٰ پنجاب کو نظر انداز کرنے پر مسلم لیگ ن واضح طور پر دو دھڑوں میں تقسیم ہو جائے۔

متعلقہ عنوان :