پریس کونسل آف پاکستان کے آرڈیننس سے متعلق فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ موصول ہو گئی ہے، اس پر مزید تحقیقات ہوں گی،

وزارت کے آفیسر ناصر جمال نے جان بوجھ کر حقائق چھپائے، انہیں عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے، انہیں جواب دینا ہو گا کہ وہ ایسا کیوں کر رہے تھے، جمہوری ادوار میں فریقین کو اعتماد میں لئے بغیر قانون سازی ممکن نہیں، ہم نے پریس کونسل آف پاکستان، رجسٹرار آفس اور آڈٹ بیورو کو ضم کرنے کا کہا تاکہ صحافیوں کو ون ونڈو سہولت میسر آ سکے، اس وقت اطلاعات تک رسائی کا بل سینیٹ سے منظور ہو چکا ہے اور قومی اسمبلی میں زیر کار ہے، صحافیوں کے تحفظ کے بل کی وزارت قانون نے منظوری دیدی ہے، اس کے علاوہ ویج بورڈ پر عملدرآمد میں مشکلات دور کرنے کیلئے کام ہو رہا ہے، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مسلح افواج، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سیکورٹی سے متعلقہ اداروں نے عظیم قربانیاں دی ہیں وزیر مملکت اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب کا پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ میں پریس کانفرنس سے خطاب

منگل 19 ستمبر 2017 23:30

پریس کونسل آف پاکستان کے آرڈیننس سے متعلق فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 19 ستمبر2017ء) وزیر مملکت برائے اطلاعات، نشریات و قومی ورثہ مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ پریس کونسل آف پاکستان کے آرڈیننس سے متعلق فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ موصول ہو گئی ہے، اس پر مزید تحقیقات ہوں گی، وزارت کے آفیسر ناصر جمال نے جان بوجھ کر حقائق چھپائے، انہیں عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے، انہیں جواب دینا ہو گا کہ وہ ایسا کیوں کر رہے تھے، جمہوری ادوار میں فریقین کو اعتماد میں لئے بغیر قانون سازی ممکن نہیں، ہم نے پریس کونسل آف پاکستان، رجسٹرار آفس اور آڈٹ بیورو کو ضم کرنے کا کہا تاکہ صحافیوں کو ون ونڈو سہولت میسر آ سکے، اس وقت اطلاعات تک رسائی کا بل سینیٹ سے منظور ہو چکا ہے اور قومی اسمبلی میں زیر کار ہے، صحافیوں کے تحفظ کے بل کی وزارت قانون نے منظوری دیدی ہے، اس کے علاوہ ویج بورڈ پر عملدرآمد میں مشکلات دور کرنے کیلئے کام ہو رہا ہے، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مسلح افواج، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سیکورٹی سے متعلقہ اداروں نے عظیم قربانیاں دی ہیں۔

(جاری ہے)

منگل کو پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ میں پی آئی او محمد سلیم کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پریس کونسل آف پاکستان آرڈیننس کے معاملہ کے بارے میں سینئر آفیسر شفقت جلیل کی سربراہی میں قائم فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ آ چکی ہے، اس معاملہ پر کچھ میڈیا کے حصہ نے حقیقت سے ماورا رپورٹنگ کی۔ انہوں نے کہا کہ قانون بنانا حکومت اور پارلیمان کا حق ہے، یہ تاثر دیا گیا کہ حکومت اور متعلقہ وزیر خوفزدہ ہو گئی ہیں اور اس لئے مسودہ واپس لے لیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ قانون بنانے کیلئے طے شدہ طریقہ کار ہے جس کے مطابق وزارت قانون سے پہلے مسودہ کی منظوری لی جاتی ہے، اس کے بغیر اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، جمہوری ادوار میں فریقین کو اعتماد میں لئے بغیر قانون سازی ممکن نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت وزارت اطلاعات سے متعلقہ دو قوانین پر کام ہو رہا ہے ان میں سے ایک اطلاعات تک رسائی کا بل ہے جو سسٹم میں شفافیت کیلئے نہایت ضروری ہے، یہ سینٹ سے منظور ہو چکا ہے، قومی اسمبلی میں ایجنڈے پر ہے۔

اس کے علاوہ صحافیوں کے تحفظ کا قانون بن رہا ہے جس کی وزارت قانون سے منظوری لی گئی ہے۔ وزیر مملکت نے کہا کہ ویج بورڈ پر مشکلات دور کرنے کیلئے کام ہو رہا ہے، میڈیا مالکان کا اس میں کلیدی کردار رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا نمائندوں سے درخواست ہے کہ بغیر تصدیق کوئی خبر شائع یا نشر نہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کے بعد اب انکوائری کا مرحلہ آئے گا۔

انہوں نے کہا کہ انٹرنل پبلسٹی ونگ سے میرے نام کے تین مراسلے لکھے گئے، ناصر جمال نے جان بوجھ کر ایسا کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے پریس کونسل آف پاکستان، رجسٹرار آفس اور آڈٹ بیورو کو ضم کرنے کا کہا تاکہ صحافیوں کو ون ونڈو سہولت میسر آ سکے، یہ معاملہ مارچ میں شروع ہوا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے انضمام کی بات تھی اور فیکٹ فائنڈنگ میں یہ بات سامنے آئی کہ میں نے تحریری طور پر وزارت کے تین اداروں کے انضمام کی بات کی جبکہ اس حوالہ سے ایک ادارہ کی جانب سے ورکنگ پیپر میں بھی یہی بات سامنے آئی۔

ناصر جمال نے اپنے دفتر میں اجلاس بلا کر پریس کونسل آف پاکستان آرڈیننس پر نظرثانی کے مسودہ کی ہدایات دیں، یہ وزارت کی سرکاری ہدایات پر نہیں بنایا گیا، ناصر جمال نے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کے سامنے اعتراف کیا کہ وزیر مملکت نے اس تجویز کو مسترد کر دیا تھا، ناصر جمال دانستہ طور پر حقائق چھپا رہے تھے، فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں جو بیان آئے ہیں وہ ناصر جمال کے حق میں نہیں جاتے۔

انہوں نے مجھ سے بھی کہا کہ ان سے غلطی ہو گئی ہے تاہم ان کو اس کا جواب دینا پڑے گا، ہم اداروں کو ریگولیٹ کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سب کو افسوس ہوا یہ حکومت اور میڈیا کے درمیان تعلقات خراب کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ وزیر مملکت نے کہا کہ وہ چھٹی پر جا رہی ہیں اس لئے سیکرٹری اطلاعات کو انکوائری کا کہہ دیا ہے، اس کی بروقت تحقیقات ہوں گی، اس طرح کے موضوعات پر مبالغہ آرائی سے گریز کرنا چاہئے۔

انہوں نے میڈیا سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ میں آپ کی نمائندہ ہوں۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ یہ تحقیقات کرائی جائیں گی کہ آیا ناصر جمال اکیلے ہی یہ کر رہے تھے، پریس کونسل آف پاکستان کے چیئرمین کو اپنے دفتر میں بلا کر ہدایات دی جا رہی تھیں، مراسلوں میں یہ ہدایات وزیر کی طرف سے دی جا رہی تھیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ این اے 120 کے ضمنی انتخاب میں کامیابی پر پوری قوم کو مبارکباد دیتی ہوں، نواز شریف نے ملک کو اندھیروں سے نکالا، دہشت گردی کا خاتمہ کیا، ہیلتھ کیئر، ایجوکیشن پروگرام شروع کیا، سی پیک کا تحفہ دیا، اس جماعت کو عوام نے ووٹ دیا اور جنہوں نے چار سال بعد یہ اعتراف کیا کہ وہ نااہل تھے، چار سال جھوٹ بولا، اداروں کی تضحیک و تذلیل کی، عوام نے ان کو مسترد کیا، محمد نواز شریف ایک بار پھر سرخرو ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ ایک آمر کے مقابلہ میں کلثوم نواز نے کھڑے ہو کر مقابلہ کیا، وہ قومی اسمبلی کی رکن بن چکی ہیں، این اے 120 کے عوام نے ان کی صلاحیتوں پر اعتماد کیا، وہ بیمار ہیں الله تعالیٰ ان کو صحت دے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم یا پارٹی صدر بننے کے حوالہ سے قیاس آرائیاں حقیقت پر مبنی نہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آرمی چیف اور وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے بیانات کو ان کے تناظر میں دیکھنا چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی آئی ہے، 2017ء میں دہشت گردی کے واقعات 2600 سے کم ہو کر 160 تک آئے ہیں تاہم یہ بھی نہیں ہونے چاہئیں، اس حوالہ سے حکومت صوبوں کو اعتماد میں لے کر کام کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کے وژن کے مطابق دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مسلح افواج، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سیکورٹی سے متعلقہ اداروں نے عظیم قربانیاں دی ہیں، اس پر انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔

نیب پیشی کے حوالہ سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کلثوم نواز کی بیماری تشویشناک ہے، ان کا سارا خاندان لندن میں ان کے ساتھ ہے، ان کا علاج چل رہا ہے، مریم نواز نہ چاہتے ہوئے بھی ضمنی انتخاب کے فوری بعد لندن گئیں۔ انہوں نے کہا کہ نیب میں پیشی کے حوالہ سے آئین و قانون کے تحت عمل ہو گا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان کی مسلح افواج، قانون نافذ کرنے والے اداروں نے نواز شریف کے وژن کے مطابق دہشت گردی کے خلاف جس طرح جنگ لڑی ہے ان سے ڈومور کا مطالبہ غیر مناسب ہے، وزیراعظم نے جو بیان دیا ہے وہ وزیراعظم کی حیثیت سے دیا ہے۔

قومی اسمبلی میں کورم کے مسئلہ پر سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کی نااہلی کا شاک اراکین کو ہے جو جلد ختم ہونے والا نہیں، ان کے نمائندے ہونے کے ناطے وہ نواز شریف کے کارکن بھی ہیں جو ان سے محبت بھی کرتے ہیں، وزیراعظم کو جس طرح اقامہ پر نااہل قرار دیا گیا وہ سوالیہ نشان ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا میں قانون ساز اداروں میں کورم کا تصور نہیں ہے، وہاں جو رکن اپنے حلقہ میں ہوتا ہے اسے بھی پارلیمنٹ میں تصور کیا جاتا ہے تاہم یہ اراکین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اجلاس میں آئیں، آج اس حوالہ سے بہتری دیکھنے میں آئی، انتخابات کا آخری سال ہے اس لئے اراکین زیادہ تر اپنے حلقوں میں رہنا ضروری سمجھتے ہیں۔