حکومت فاٹا کے عوام سے کیے گئے وعدوں سے پیچھے ہٹ رہی ہے ، سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارشات پر عملدرآمد کیا جائے ، قبائل کو اسلام آباد ہائیکورٹ کی بجائے پشاور ہائی کورٹ کی قانونی عملداری میں دیا جائے

امیر جماعت اسلامی سراج الحق کی سینیٹ اجلاس میں شرکت کے بعد پارلیمنٹ کے باہر میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو

منگل 19 ستمبر 2017 23:16

حکومت فاٹا کے عوام سے کیے گئے وعدوں سے پیچھے ہٹ رہی ہے ، سرتاج عزیز کمیٹی ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 19 ستمبر2017ء) امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہاہے کہ حکومت فاٹا کے عوام سے کیے گئے وعدوں سے پیچھے ہٹ رہی ہے ، سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارشات پر عملدرآمد کیا جائے ، قبائل کو اسلام آباد ہائیکورٹ کی بجائے پشاور ہائی کورٹ کی قانونی عملداری میں دیا جائے کیونکہ فاٹا سے اسلام آباد بہت دور ہے اور لوگوں کے لیے اسلام آباد آنا جانا مشکل ہوگا۔

وہ منگل کو سینیٹ اجلاس میں شرکت کے بعد پارلیمنٹ کے باہر میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کر رہے تھے ۔ سینیٹر سراج الحق نے کہاکہ اس وقت فاٹا میں امن و امان اور بنیادی انفراسٹرکچر تباہ ہے اور بے انتہا کرپشن کی وجہ سے سڑکوں ، پلوں اور سکولوں کی بحالی کا کام التوا میں پڑا ہوا ہے ۔

(جاری ہے)

قبائلی عوام بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں تعلیم اور روزگار کا نہ ہونا لوگوں کے لیے نہایت پریشان کن ہے ۔

انہوں نے کہاکہ خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقوں کا مذہب ، کلچر اور زبان ایک اور نسلی اعتبار سے بھی سب ایک ہیں ۔ فاٹا میں قبائلی رواج ایکٹ کا نفاذ ناقابل قبول اور ناقابل برداشت ہے ۔ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور شہر میں دو سیکرٹریٹ چلانا پیچیدگیوں کا باعث ہے ۔انہوں نے کہاکہ وفاقی حکومت وعدے کے مطابق این ایف سی میں قبائلی علاقوں کا تین فیصد حصہ ادا کرے اور فیصلے کو آئینی تحفظ دیا جائے ۔

قبائلی علاقوں کو محفوظ اور غیر محفوظ کی بنیاد پر تقسیم کرنا درست نہیں ۔ سینیٹر سراج الحق نے کہاکہ اگر ریاست دیر اور سوات خیبر پختونخوا میں ضم ہوسکتی ہیں تو پھر قبائلی علاقہ جات کو کیوں ضم نہیں کیا جارہااور فاٹا کے منتخب ممبران کو قبائلی علاقوں کے لیے قانون سازی کا موقع کیوں نہیں دیا جاتا ۔ انہوںنے کہاکہ فاٹا اصلاحات میں کچھ پر عملدرآمد اور کچھ کو چھوڑ دینا مناسب نہیں اور پانچ سال کی مدت اس کے لیے بہت زیادہ ہے یہ کام 2018 ء کے انتخابات سے پہلے ہونا چاہیے جو کام پانچ سال بعد جائزہے وہ اب کیونکر ناجائز ہوسکتاہے ۔

انہوں نے کہاکہ قبائلی عوام تبدیلی چاہتے ہیں مگر پولٹیکل انتظامیہ اس میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے اور قبائل کو ایف سی آر کے ظالمانہ شکنجے سے رہاہونے کا موقع نہیں دینا چاہتی ۔ انہوںنے کہاکہ پولیٹیکل ایجنٹ خود کو علاقے کا بادشاہ سمجھتا ہے اور ایف سی آر کے خاتمہ کو در اصل اپنی بادشاہت چھن جانے سے تعبیر کرتاہے اسی وجہ سے وہ وفاقی حکومت کے فیصلوں کی راہ میں رکاوٹیں ڈال رہاہے ۔