چین اور بھارت کے درمیان سرحد کے بعد آبی تناز ع کھڑا ہوگیا

چین نے معاہدے کے باوجود برہم پتر دریا کی معلومات کاتبادلہ نہیں کیا ، بھارت کا الزام بھارت کے ساتھ دریا کی معلومات کا تبادلہ کرنے کا دوبارہ آغاز ممکن نہیں ،معلومات کے نظام کی بحالی کا دارومدار برہم پتر دریا پر ہائیڈرولوجیکل کے نظام پر ہونے والے کام پر ہے،ترجمان چینی وزارت خارجہ

منگل 19 ستمبر 2017 11:47

چین اور بھارت کے درمیان سرحد کے بعد آبی تناز ع کھڑا ہوگیا
بیجنگ /نئی دہلی /لندن (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 19 ستمبر2017ء) بھارت نے چین کے ساتھ سرحد کے بعد پانی کا تنازع شروع کردیا، چین اور بھارت ایک بار پھر آمنے سامنے کھڑے ہو گئے ہیں ، آبی تنازع پردونوں ملکوں میں شدید کشیدگی پید اہوگئی ۔منگل کو غیرچین اور بھارت نے اگرچہ ممکنہ طور پر سرحد پر تصادم کو روک لیا ہو لیکن دونوں ممالک ایک بار پھر آمنے سامنے کھڑے ہو گئے ہیں،بھارت کاالزام ہے کہ چین نے موجودہ مون سون سیزن میں برہم پتر دریا کے ہائیڈرولوجیکل نہیں دیے یعنی پانی کی نقل و حمل، تقسیم اور کوالٹی کے بارے میں سائنسی تجزیہ،تاہم چین کا کہنا ہے کہ براہم پتر دریا کے پرہائیڈرولوجیکل کو اپ گریڈ کیا جا رہا ہے اور اس وجہ سے وہ بھارت کے ساتھ اعداد و شمار شیئر نہیں کر سکتا۔

(جاری ہے)

بھارت اور چین کے درمیان برہم پتر دریا کی معلومات کو شیئر کرنے کا تنازع ایسے وقت آیا ہے جب کچھ ہی عرصہ قبل دونوں ممالک کی فوجیں ہمالیہ میں متنازع علاقے پر آمنے سامنے آ گئی تھیں۔یہ کشیدگی ڈوکلام کے علاقے میں چین کی جانب سے نئی سڑک کی تعمیر پر پیدا ہوئی۔ چین کو سڑک کی تعمیر سے روکنے کے لیے بھارت نے فوجیں بھیجی تھی۔ رپورٹ کے مطابق اس علاقے پر بھوٹان اور چین دونوں اپنا دعوی کرتے ہیں۔

یہ علاقہ بھارت کے شمال مشرقی صوبے سکم اور پڑوسی ملک بھوٹان کی سرحد سے ملتا ہے اور اس علاقے پر چین اور بھوٹان کا تنازع جاری ہے جس میں انڈیا بھوٹان کی حمایت کر رہا ہے۔براہم پتر دریا میں مون سون میں شدید سیلاب ہوتا ہے جس کے باعث انڈیا اور بنگلہ دیش میں کافی نقصان ہوتا ہے۔انڈیا اور بنگلہ دیش کے چین کے ساتھ معاہدے ہیں جن کے تحت مون سون سیزن کے دوران چین کو براہم پتر دریا کے ہائیڈرولوجیکل دونوں ممالک سے شیئر کرنا لازم ہے۔

بھارت کی وزارت خارجہ کی ترجمان نے گذشتہ مہینے ایک پریس بریفنگ میں کہا تھا 'اس سال 15 مئی سے شروع ہونے والے مون سون سیزن پر چین نے ہمارے ساتھ برہم پتر دریا کے ہائیڈرولوجیکل شیئر نہیں کیے۔انھوں نے مزید کہا کہ معلومات شیئر نہ کرنے کے پیچھے تکنیکی وجوہات کیا ہیں اس کے بارے میں ہمیں علم نہیں لیکن دونوں ملکوں کے درمیان ایک نظام ہے جس کے تحت چین کو ہائیڈرولوجیکل شیئر کرنا لازمی ہے۔

تاہم گذشتہ ہفتے چینی وزارت خارجہ نے کہا تھا کہ تکنیکی وجوہات کی بنا پر معلومات شیئر نہیں کی گئیں۔'گذشتہ سال سیلاب کے باعث ہائیڈرولوجیکل نظام کو نقصان پہنچا تھا۔ اس نظام کو مرمت کی ضرورت ہے۔ اسی وجہ سے چین کے پاس ہائیڈرولوجیکل معلومات نہیں ہیں۔لیکن بنگلہ دیش کے حکام کا کہنا ہے کہ ان کو چین کی جانب سے براہم پترا دریا میں پانی کی صورتحال کے حوالے سے معلومات موصول ہو رہی ہیں۔

بنگلہ دیش کے ایک اعلی اہلکار موفضل حسین نے برطانوی نشریاتی ادارے کو بتایا 'ہمیں چند روز قبل ہی چین کی جانب سے برہم پتر دریا میں پانی کی سطح کے حوالے سے معلومات موصول ہوئی تھیں۔انھوں نے کہا کہ ہمیں 2002 سے تبت میں قائم تین ہائیڈرولوجیکل سٹیشنز سے معلومات موصول ہوتی ہیں اور اس مون سون سیزن میں بھی چین نے معلومات شیئر کی ہیں۔برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق بنگلہ دیش کے وزیر برائے پانی کے ذخائر انیس الاسلام محمد نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ ان کو چین سے ہائیڈرولوجیکل معلومات مل رہی ہیں۔

تاہم چین نے عندیہ دیا ہے کہ بھارت کے ساتھ دریا کی معلومات شیئر کرنے کا دوبارہ آغاز ممکن نہیں ہے۔چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا 'جہاں تک دریا کی معلومات شیئر کرنے کے نظام کی بحالی کا تعلق ہے اس کا دارومدار برہم پتر دریا پر ہائیڈرولوجیکل کے نظام پر ہونے والے کام پر ہے۔واضح رہے کہ کئی سالوں کی کوششوں کے بعد حال ہی میں انڈیا برہم پتر دریا کی معلومات لینے میں کامیاب ہوا تھا۔

بھارت نے مون سون سیزن کے علاوہ بھی چین سے برہم پتر دریا کے ہائیڈرولوجیکل مانگے تھے۔ بھارت کو خدشہ ہے کہ پانی کی قلت پوری کرنے کے لیے چین براہم پیترا دریا سے پانی کا رخ موڑ سکتا ہے۔واضح رہے کہ چین نے برہم پتر دریا پر کئی ہائیڈرو پاور ڈیم تعمیر کیے ہیں۔ تاہم چین کا کہنا ہے کہ یہ ڈیم نہ تو پانی ذخیرہ کرتے ہیں اور نہ ہی پانی کا رخ موڑتے ہیں۔

لیکن حالیہ برسوں میں انڈیا اور خاص طور پر شمال مشرقی انڈیا میں خدشہ بڑھتا جا رہا ہے کہ چین اچانک بڑی مقدار میں پانی دریا میں چھوڑ دے گا۔ بھارتی ریاست آسام میں لوگوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے دیکھا ہے کہ برہم پیترا دریا میں پانی کی سطح اچانک بہت بلند ہو جاتی ہے۔حال ہی میں کی گئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ عالمی سطح پر تبت کا شمار ان جگہوں میں ہوتا ہے جہاں پانی میں اضافہ ہوا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وجہ سے دریا میں سیلاب کا خطرہ ہے اور اسی لیے چین کی جانب سے ہائیڈرولوجیکل معلومات شیئر کرنا ناگزیر ہے۔موجودہ صورتحال پر انڈیا کے حکام کا کہنا ہے کہ ان کو کافی پریشانی لاحق ہے۔ 'ہم تو یہ سوچ رہے تھے کہ چین سے مون سون سیزن کے علاوہ بھی برہم پترا دریا کا ہائیڈرولوجیکل مانگیں گے تاکہ ہمیں کوئی شک نہ رہے کہ چین پانی کا رخ موڑ رہا ہے۔

لیکن اب تو ہمیں مون سون کے دوران بھی معلومات نہیں مل رہیں۔ یہ خطرے کی علامت ہے اور اس سے چین کا ارادہ صاف ظاہر ہے۔چین نے ایک سال قبل ہائیلارو پروجیکٹ کے لیے ہارلونگ زانگبو کے ایک راتے کو بند کر دیا تھا۔چین نے ایسا اس وقت کیا جب بھارت پاکستان کے ساتھ سندھ طاس معاہدے کو ختم کرنے کے بارے میں اشارے دے رہا تھا۔یاد رہے کہ یہ صرف چین ہی کے ساتھ نہیں ہے بلکہ بنگلہ دیش اور پاکستان کو انڈیا سے شکایت ہے کہ دہلی دریاں کے پانی کے حوالے سے دونوں ممالک کے خدشات کو نظر انداز کرتا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ چین و بھارت اور بھارت ، پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان پانی کے تنازع سے یہ بات صاف ہے کہ جنوبی ایشیا میں پانی کے اہم ایشو بنتا جا رہا ہے۔

متعلقہ عنوان :