ہم امریکی امداد کے محتاج نہیں، اپنے وسائل سے دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑی اور افغان مہاجرین کی میزبانی کی ،خواجہ آصف

امریکہ کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ افغان مسئلے کا فوجی حل نہیں،16سال میں ایک لاکھ فوج جہاں کچھ نہیں کر سکی وہاں اب کیا ہو گا،ہمار اہاؤس ان آرڈر نہیں نہ ہی نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد ہوا چوہدری نثار سے ناراضگی کی وجہ اصغر خان کیس میں اپنی اوقات سے بڑی بات کرنا تھی، نواز شریف نے میرے بیان کی تائید کر کے اسے اوقات بخشی، عالمی ضمیر پر مسلمانوں کے خون کا پہلے ہی بوجھ تھا روہنگیا کے حالات سے یہ بوجھ اور بھی بڑھ گیا ہے اسلام آباد کے اجلاس میں خطے کے تمام ممالک کے ساتھ اہم سفیر موجود تھے، ہم نے ان سے پالیسی سے متعلق رائے لی کہ کیا ہماری پالیسی درست ہے اگر نہیں ہے تو اسے کیسے درست کیا جا سکتا ہے، نجی ٹی وی سے گفتگو

جمعہ 15 ستمبر 2017 00:01

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 15 ستمبر2017ء) وزیر خارجہ خواجہ آصف نے کہا ہے کہ ہم امریکی امداد کے محتاج نہیں، اپنے وسائل سے دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑی اور افغان مہاجرین کی میزبانی کی، امریکہ کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ افغان مسئلے کا فوجی حل نہیں،16سال میں ایک لاکھ فوج جہاں کچھ نہیں کر سکی وہاں اب کیا ہو گا،ہمار اہاؤس ان آرڈر نہیں نہ ہی نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد ہوا، چوہدری نثار سے ناراضگی کی وجہ اصغر خان کیس میں اپنی اوقات سے بڑی بات کرنا تھی، نواز شریف نے میرے بیان کی تائید کر کے اسے اوقات بخشی، عالمی ضمیر پر مسلمانوں کے خون کا پہلے ہی بوجھ تھا روہنگیا کے حالات سے یہ بوجھ اور بھی بڑھ گیا ہے۔

اسلام آباد کے اجلاس میں خطے کے تمام ممالک کے ساتھ اہم سفیر موجود تھے۔

(جاری ہے)

ہم نے ان سے پالیسی سے متعلق رائے لی کہ کیا ہماری پالیسی درست ہے اگر نہیں ہے تو اسے کیسے درست کیا جا سکتا ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوںنے ایک نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔ انہوں نے کہا کہ ٹرمپ افغان مسئلے کا جو حل دے رہے ہیں وہ ناکام ہو چکا ہے اگر ایک لاکھ فوج افغانستان میں کچھ نہیں کر سکی تو انہیں نئی سوچ اپنانی چاہیئے۔

افغان مسئلے کا فوجی حل نہیں خطے کے ممالک کو مل کر اس مسئلے کا سیاسی حل نکالنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ افغان مسئلے کے سب سے زیادہ اثرات پاکستان پر پڑے ہیں۔ چین ، ایران اور ترکی میں پاکستان کے مؤقف کو پذیرائی ملی ہمارے اور ترکی کے خیالات میں ہم آہنگی تھی۔ امریکی صدر کے بیان پر ان ممالک میںت شویش پائی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج امریکہ جا رہا ہوں ۔

جہاں پر روس افغانستان اور دیگر ممالک کے وزراء خارجہ اور حکام سے ملاقاتیں ہونگی۔ ہماری فوج دہشتگردی کے خلاف جنگ آج بھی لڑ رہی ہے یہ جنگ ہم نے اپنے وسائل سے لڑی ہے ۔ امریکی امداد سے نہیں لڑی۔ امریکہ کو امداد کے لئے ’’نو‘‘ کہا ہے۔ ہم امریکی امداد کے محتاج نہیں ہم نے افغان مہاجرین کی مہمان نوازی اپنے وسائل سے کی ہے انہوں نے کہاک ہ امریکہ کو واضح کریں گے کہ ان کی پالیسی غلط ہے ۔

افغان مسئلے کا سیاسی حل نکالیں افغانستان میں 16سال سے جنگ جاری ہے اور آج بھی ملک کے آدھے سے زائد حقہ پر طالبان کا قبضہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کو ‘‘نو مور‘‘ کہیں گے حقانی نیٹ ورک کے پاس اگر افغانستان میں 40فیصد حقہ ہے تو انہیں پاکستان میں پناہ لینے کی کیا ضرورت ہے۔ حقانی نیٹ ورک مشرقی افغانستان سے آپریٹ کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو بھارت اور افغانستان کے بارڈر پر مصروف رکھا جا رہا ہے پاکستان بیرونی خطرات سے مکمل آگاہ ہے۔

1980ء اور پچھلے دس سال کی غلط پالیسیوں کے باعث ہمیں اندرونی طور پر خطرات ہیں ۔ میں اپنا گھر درست کرنے کی بات پر سو فیصد قائم ہوں ۔ انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں ہمارے جوان، افسران ، سیاسی رہنماؤں کی شہادتیں ہوئیں ۔ ہم نے اربوں ڈالر کا نقصان کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں قومی پالیسی کے تابع ہونا چاہیئے۔ مگر ہمارا ہاؤس ان آرڈر نہیں۔

نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد نہیں ہوا۔ ہم اپنا گھر ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اصغر خان کیس میں جو بیان دیا تھا وہ شاید اوقات سے بڑی بات کر دی تھی۔ چوہدری نثار کی ناراضگی کی وجہ بھی شاید یہی ہے ۔ اس کے بعد چوہدری نثار سے کوئی بات نہیں ہوئی5سال گزر گئے خدا نثار کو خوش اور آباد رکھے۔ صلح صفائی کی ضرورت نہیں سمجھتا۔

میرے بیان کی خود میاں نواز شریف نے تائید کی اور اسے اوقات بخش دی۔ اس کے بعد معاملے کو ختم ہونا چاہیئے تھا انہوں نے کہا کہ عالمی ضمیر پر مسلمانوں کے خون کے بڑے بڑے بوجھ ہیں اور اب روہنگیا کے مسلمانوں کے خون پر اس بوجھ میں اور بھی اضافہ ہو گیا ہے ۔ برما کو کسی ملک کی حمایت نہیں لیکن ان کے وسائل بڑے ہیں برما کی وزیراعظم کون وبل انعام ملا ہوا ہے۔۔