نوازشریف اعلی عدلیہ کے خلاف ہرزہ سرائی مہم کی قیادت کررہے ہیں کررہے ہیں۔ سپریم کورٹ

پاناما کیس میں نیب بطور ادارہ مکمل طور پر ناکام ہوا،درخواست گزار چاہتے ہیں ہم کوئی فیصلہ بھی دیں ، ہم نے فیصلہ دیا تو بہت خطرناک کام ہوگا۔قانون شہادت میں تحریر کو زبانی بات پر فوقیت حاصل ہے، تحریری معاہدے میں کہیں نہیں لکھا تھا کہ نواز شریف تنخواہ نہیں لیں گے ‘ معاہدے میں یہ ضرور تھا کہ نواز شریف کو 10 ہزار درہم تنخواہ ملتی ہے اب ہم یہ کیسے مان لیں وہ تنخواہ کو اثاثہ نہیں سمجھتے۔ عدالت کے ریمارکس

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعرات 14 ستمبر 2017 11:22

نوازشریف اعلی عدلیہ کے خلاف ہرزہ سرائی مہم کی قیادت کررہے ہیں کررہے ..
اسلام آباد (اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔14 ستمبر۔2017ء) سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ نوازشریف عدالت کے خلاف ہرزہ سرائی مہم کی قیادت کررہے ہیں کررہے ہیں۔ پاناما لیکس فیصلے کے خلاف نظر ثانی درخواستوں کی سماعت کے دوران جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ نوازشریف عدالت کے خلاف ہرزہ سرائی مہم کو لیڈ کررہے ہیں۔ پاناما کیس کی نظرثانی درخواستوں پر جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ سماعت کررہا ہے۔

بنچ کے دیگر ارکان میں جسٹس اعجاز افضل، جسٹس عظمت شیخ سعید، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس گلزار احمد شامل ہیں۔سماعت کے آغاز پر نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل میں کہا کہ نااہلی اور الیکشن کو کالعدم قرار دینا دو الگ الگ معاملات ہیں، اگر اثاثے ظاہر نہ کرنے پر الیکشن کالعدم ہوتا ہے تو نااہلی ایک مدت کے لیے ہوتی ہے جب کہ نااہلی کے لیے باقاعدہ ٹرائل ضروری ہوتا ہے اور ٹرائل میں صفائی کا موقع ملتاہے۔

(جاری ہے)

آرٹیکل 62 کادائرہ کار بڑا وسیع ہے، 62 ون ایف صرف اثاثے چھپانے کے لئے استعمال نہیں ہوتا اس کے علاوہ آرٹیکل 76اے اور 78کی نسبت 62ون ایف کے اثرات زیادہ سنگین ہیں۔ نوازشریف کو اقامہ اور تنخواہ ظاہر نہ کرنے پر نااہل کیا گیا، لفظ اثاثہ کے ایک سے زیادہ معنی اورتشریح ہے، نواز شریف نے کبھی تنخواہ کا دعویٰ نہیں کیا اور نہ کبھی تنخواہ کو اثاثہ سمجھاانہوں نے تنخواہ کو اثاثہ نہ سمجھنے کےباعث ظاہر کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا اور سمجھنے میں غلطی پر کہا گیا کہ نواز شریف صادق اور امین نہیں رہے جب کہ غلطی کرنے پر آرٹیکل 62 ون ایف کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔

جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیے کہ قانون شہادت میں تحریر کو زبانی بات پر فوقیت حاصل ہے، تحریری معاہدے میں کہیں نہیں لکھا تھا کہ نواز شریف تنخواہ نہیں لیں گے جب کہ معاہدے میں یہ ضرور تھا کہ نواز شریف کو 10 ہزار درہم تنخواہ ملتی ہے اب ہم یہ کیسے مان لیں وہ تنخواہ کو اثاثہ نہیں سمجھتے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ آپ کہنا چاہتے ہیں تنخواہ ظاہر نہ کرنے پر روپا کے تحت کارروائی ہونی چاہیے نااہلی نہیں؟۔

نواز شریف نے تنخواہ والا اکاﺅنٹ ظاہر نہیں کیا جب کہ دستاویزات کے مطابق طریقہ کار کے تحت نوازشریف نے اکاﺅنٹ کھولا۔ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ جے آئی ٹی نے یہ نہیں کہا تھا کہ اکاﺅنٹ چھپایا گیا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ نوازشریف کا ایمپلائی نمبر194811 ہے اور دستاویزات کہتی ہیں کہ تنخواہ وصول کی گئی ہےاس کے ساتھ ساتھ نواز شریف کے کیپٹل ایف زیڈ ای اکاﺅنٹ میں اگست 2013 کو تنخواہ بھی آئی، عدالت نے فیصلہ تسلیم شدہ حقائق پر کیا تھا۔

عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ہم کسی چیز کو ناقابل تردید سچ نہیں کہہ رہے آپ جے آئی ٹی رپورٹ میں کمی یا کوتاہیاں ٹرائل کورٹ میں اٹھائیں، احتساب عدالت میں گواہیاں اور جرح ہو گی، کیا آپ استدعا کررہے ہیں کہ جے آئی ٹی کو دوبارہ زندہ کرکے رپورٹ مکمل کرنے کا کہیں؟۔ آپ چاہتے ہیں کہ ریفرنس کا معاملہ بھی ہم چیئرمین نیب پر چھوڑ دیتے؟ آپ چیئرمین نیب کا بیک گراونڈ اور کنڈکٹ بھی ذہن میں رکھیں۔

جس پر وکیل نے جواب دیا کہ عدالت نیب کو قانون کے مطابق تحقیقات کاحکم دے سکتی ہے، آپ نے تو بچوں پر بھی ریفرنس دائرکرنےکاحکم دیاجس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ بچہ کوئی نہیں ہے وہ سب بچوں والے ہیں۔بنچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ اگر نیب کام کرتا تو کیس سپریم کورٹ میں نہ آتا، ہر جج نے اپنے فیصلے میں اس کا ذکر بھی کیا ہے اور عدالت نے فیصلے میں لکھا، سب جانتے ہیں کہ کیا کیا ہوا دوہرانا نہیں چاہتا جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ عدالت نے کبھی کسی کوملزم نامزدکرکے مقدمہ اندراج کانہیں کہاعدالت صرف حکم دیتی ہے کہ تحقیقات کی جائیں اور قصوروار کے خلاف مقدمہ کیاجائے جس پرجسٹس عظمت سعید نے کہا کہ 9سی کاکیس ہمیشہ ہی نامزدملزمان کے خلاف ہوتا ہے۔

خواجہ حارث نے کہا کہ ایک دن میں جے آئی ٹی رپورٹ پر ریفرنس فارغ ہوجائے گاجس پرعدالت نے واضح کیا کہ پھر مسئلہ کیا ہے جائیں اور فارغ کروائیں لیکن مریم نواز کے وکیل سلمان اکرم راجہ کو پیغام دیدیں کہ کیس موخر نہیں کیاجائے گا۔پاناما لیکس فیصلے پر عملدرآمد کے لیے نگراں جج کی تقرری پر وکیل نوازشریف نے اعتراض اٹھایا کہ مخصوص ٹرائل کی نگرانی کے لیے کبھی جج تعینات نہیں کیا گیاصرف نگراں جج ہوتے ہیں لیکن مخصوص کیس کے لیے تعیناتی نہیں ہوتی صرف مانیٹرنگ ہوتی ہے سپروائزری نہیں ہوتی۔

عدالت نے اعتراض مسترد کرتے ہوئے کہا کہ نگراں جج کی تعیناتی کوئی نئی بات نہیں احتساب عدالتوں کے لیے بھی نگراں جج ہوتے ہیں۔ عدالت نے مثالیں دیتے ہوئے کہا کہ شیخ لیاقت حسین کیس میں نگراں جج تعینات کیا گیاجب کہ پنجاب کی انسداددہشت گردی عدالت میں نگراں جج لگایا گیا۔ سماعت کے دوران جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ نوازشریف عدالت کے خلاف ہرزہ سرائی مہم کو لیڈ کررہے ہیں۔

جسٹس عظمت نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ یہ بات یقینی بنائے گی کہ مقدمہ میں کوئی تعصب نہ برتا جائے،عدالت پر بھروسہ کریں ، سڑکوں پر نہ کریں۔ اثاثے چھپانے والا نمائندگی کا حقدار نہیں رہتا۔پاناما کیس میں نیب بطور ادارہ مکمل طور پر ناکام ہوا،درخواست گزارشایدچاہتے ہیں ہم کوئی فیصلہ بھی دیں ، ہم نے فیصلہ دیا تو بہت خطرناک کام ہوگا۔سابق وزیراعظم نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل مکمل کرلیے جس کے بعد وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے وکیل شاہد حامد نے اپنے دلائل شروع کیے۔

وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے وکیل شاہد حامد نے اپنے دلائل کے آغاز پر کہا کہ عدالتی فیصلے میں ان کے موکل کے خلاف کوئی حکم نہیں ہے،جے آئی ٹی نے اپنے مینڈیٹ سے تجاوز کیا جب کہ اسے اسحاق ڈار سے متعلق ہدایات نہیں دی گئی تھیں۔جس پر جسٹس گلزار نے کہا کہ اثاثے 9 ملین سے بڑھ کر 980 ملین ہوجائیں تو وضاحت ٹرائل کورٹ کو دے دیں جب کہ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا آپ کہتے ہیں کہ 90 گنا اثاثے بڑھ جائیں اور ہم آنکھیں بند رکھیں۔

اسحاق ڈار کے وکیل نے کہا کہ اثاثے مختصر وقت میں نہیں بلکہ 15 سال میں بڑھے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سوال کیا کہ آپ کے موکل نے 164 کے اعترافی بیان کو چیلنج کیا جس پر شاہد حامد ایڈووکیٹ نے کہا کہ اعترافی بیان جعلی ہے اور اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔اس موقع پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ آپ شاید چاہتے ہیں ہم کوئی فیصلہ بھی دیں اور اگر ہم نے فیصلہ دیا تو بہت خطرناک کام ہوگا۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے آبزرویشن دی کہ آئین پر چلنا کسی کو برا لگتا ہے تو لگے، ہم تو آئین اور قانون کے مطابق ہی چلیں گے، آج آپ کے خلاف فیصلہ آیا ہے تو خدشات کا شکار نہ ہوں، عدالتوں پر اعتماد کریں، عدالتوں نے پہلے بھی آپ کے حقوق کا تحفظ کیا، اب بھی کریں گے، ہم نے شہریوں کے حقوق کے تحفظ کا حلف لیا ہے۔سپریم کورٹ نے نواز شریف کے وکیل کے دلائل مکمل ہونے اور اسحاق ڈار کے وکیل کے دلائل کے بعد سماعت کل تک کے لئے ملتوی کردی۔سابق وزیراعظم نواز شریف کے بچوں کے وکیل سلمان اکرم راجا کل اپنے دلائل دیں گے۔