سی ڈی اے میں ڈیلی ویجز وکنٹریکٹ پر گریڈ 16 سے 18 کے افسران کی بھرتیوں میں بے ضابطگیوں کی نشاندہی

کرنے کیلئے قائم کردہ انکوائری کمیٹی نے رپورٹ پیش کر دی جسمیںرپورٹ میں 15 افسران کو مطلوبہ تعلیم نہ رکھنے ،26 افسران کے مطلوبہ کورس نہ کرنے، 17 کو تجربہ نہ رکھنے کا مرتکب پایا گیا، 6 کیسوں میں آسامیوں کی تخلیق کے ریکارڈکی عدم فراہمی ، 45 کیسوں میں پسند نا پسند ، 06 کیسوں میں اقرباء پروری کی نشاندہی کی گئی

بدھ 13 ستمبر 2017 21:02

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 13 ستمبر2017ء) سی ڈی اے میں ڈیلی ویجز اور کنٹریکٹ پر گریڈ 16 سے 18 کے افسران کی بھرتیوں میں بے ضابطگیوں کی نشاندہی کرنے کے لیے قائم کردہ انکوائری کمیٹی نے اپنی رپورٹ پیش کر دی ہے۔یہ تین رکنی انکوائری کمیٹی ڈائریکٹر سیکٹر ڈویلپمنٹ ہمایوں اختر کی سربراہی میں قائم کی گئی جبکہ ڈپٹی ڈائریکٹر فارسٹ رانا طاہر حسن اور ڈپٹی ڈائریکٹر ایچ آڑ ڈیIII- عبدالمنان خان ممبر تھے۔

انکوائری کمیٹی کو مینڈیٹ دیا گیا تھا کہ یکم جنوری 2011 ؁ء سے 31 دسمبر2012 ؁ء تک ادارے میں ڈیلی ویجز اور کنٹریکٹ کی بنیاد پر بھرتی کیے گئے افسران کی بھرتی کے عمل کو دستیاب ریکارڈ کی بنیاد پر جانچ پٹرتال کی جائے۔انکوائری کمیٹی کو مرغزار چڑیا گھر اسلام آباد کی ڈیویلپمنٹ کے منصوبے کا عملی جائزہ لے کر رپورٹ پیش کرنے کی بھی ہدایت کی گئی کہ منصوبے کی تکمیل ہوچکی ہے یا نہیں ۔

(جاری ہے)

انکوائری کمیٹی کو یہ بھی مینڈیٹ دیا گیا تھا کہ اس سلسلے میں بے ضابطگیوں کے مرتکب افسران اور ملازمین کا تعین بھی کریں۔ انکوائری کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں 15 افسران کو مطلوبہ تعلیم نہ رکھنے ،26 افسران کے مطلوبہ کورس نہ کرنے، 17 کو مطلوبہ تجربہ نہ رکھنے کا مرتکب پایا گیا۔ اسی طرح 06 کیسوں میں آسامیوں کی تخلیق (Post Creation) کے ریکارڈکی عدم فراہمی ، 45 کیسوں میں پسند نا پسند جبکہ ریکارڈ میں ردوبدل کے ایک کیس اور 06 کیسوں میں اقرباء پروری کی نشاندہی کی گئی ہے۔

متعدد کیسوں میں ایک یا اس سے زیادہ بے ضابطگیوں کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔ یہ انکوائری 22 مختلف پالیسیوں اور قواعد و ضوابط کو پیشِ نظر رکھ کر کی گئی۔ انکوائری رپورٹ کے مطابق بھرتی پر پابندی نہ ہونے کے باوجود 2010 سے 2012 تک کے عرصہ میں پسند نا پسند کی بنیاد پر بھرتیاں کی گئیں۔دوسری جانب کئی کیسوں میں ادارے کو درخواست گذاروں کی جانب سے دی جانے والی درخواستوں میں کسی بھی مطلوبہ پوسٹ کا ذکر نہیں کیا گیا اور صرف C.V دیئے گئے جو بھرتی کے عمل کو مشکوک بناتے ہیں۔

ٹیکنیکل کیڈرز بشمول انجینئرنگ ونگ میں ٹیلی کمیونکیشن اور الیکٹرانک ڈسپلن کے حامل گریجویٹ ٹیلی کام اور الیکٹرانک انجینئر کو الیکٹریکل اور میکنکل ڈائریکٹوریٹ میں بھرتی کیا گیا جس کے لیے مطلوبہ قابلیت اور تعلیم الیکٹریکل کے شعبے میں گریجویٹ کی ڈگری ہے۔ انکوائری رپورٹ کے مطابق کچھ کیسوں میں ڈیپارٹمنٹ ریکروٹمنٹ کمیٹی نے صرف واحد امیدوار کا انٹرویو کیا اور بغیر کسی اعتراض کے اپنی سفارشات منظوری کے لیے بجھوائی گئیں۔

اسی طرح ڈگری کی ملازمت سے مطابقت کا تعین کرنا ادارے کی ذمہ داری ہے جس کو سروس رولز 1992 میں واضح کیا گیا ہے تاہم اسے بھی نظر انداز کیا گیا۔ وزیر اعظم پیکیج کے تحت کی جانے والی بھرتیوں میںبھی بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں ذمہ دار افسران اور ملازمین کا تعین بھی کیا ہے۔ انکوائری کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں اس بات کی بھی نشاندہی کی ہے کہ ملازمین کے بچوں کی بھرتی کے 20 فیصد کوٹہ کا بھی غلط استعمال کیا گیا ہے۔

اسی طرح کیبنٹ کی سب کمیٹی برائے ملازمین کی مستقلی کی سفارشات کو بھی نظر انداز کیا گیا ۔انکوائری کمیٹی نے اپنی سفارشات میں کہا ہے کہ ڈیلی ویجز ملازمین کی بھرتی کے عمل میں ملوث افسران اور ملازمین کے خلاف کاروائی عمل میں لائی جائے جبکہ ڈیلی ویجز ملازمت کے حصول کے لیے جمع کروائی گئی تجربہ اور دیگر اسناد کو سیکورٹی ڈائریکٹوریٹ کے ذریعے تصدیق کروائی جائے۔

کمیٹی نے اپنی سفارشات میں یہ بھی کہا ہے کہ اس نوٹیفکیشن کو منسوخ کیا جائے جس کے تحت بنیادی اہلیت نہ رکھنے ،ذاتی پسند نا پسند، اقرباء پروری اور 20.06.2009 کو اخبارات میں شائع ہونے والی آسامیوں پر ڈیلی ویجز بھرتی کی گئی۔ انکوائری کمیٹی نے یہ بھی سفارش کی ہے کہ ڈیلی ویجز ملازمین کی اہلیت اور تجربہ اور دیگر اسناد کی تصدیق سروس رولز 1992 کے تحت کروائی جائے۔ کمیٹی نے اپنی سفارش میں یہ بھی کہا ہے کہ ادارہ یہ کیس لیگل ایڈوائزر کو بھی بھیجے کہ وہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک نظر ثانی اپیل بھی دائر کی جائے تاکہ اس مسئلہ کو مستقل بنیادوں پر حل کیا جا سکے ۔

متعلقہ عنوان :