پبلک اکائونٹس کمیٹی کا وزارت ترقی و منصوبہ بندی کی طرف سے ترقیاتی منصوبوں بارے بریفنگ پر عدم اطمینان اور برہمی کا اظہار

وزارتوں کی غلطیاں حکومتوں اور ریاست کر بھگتنا پڑتی ہیں، ہمیں اس نظام کودرست کرنا ہوگا ،ْ پبلک اکائونٹس کمیٹی

بدھ 13 ستمبر 2017 18:18

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 13 ستمبر2017ء)پارلیمنٹ کی پبلک اکائونٹس کمیٹی نے وزارت ترقی و منصوبہ بندی کی طرف سے ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے بریفنگ پر عدم اطمینان اور برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزارتوں کی غلطیاں حکومتوں اور ریاست کر بھگتنا پڑتی ہیں، ہمیں اس نظام کودرست کرنا ہوگا۔ پی اے سی کااجلاس بدھ کو پارلیمنٹ ہائوس میں پی اے سی کے چیئرمین سید خورشید احمد شاہ کی زیر صدارت منعقد ہوا۔

اجلاس میں کمیٹی کے ارکان سید نویدقمر ، شاہدہ اختر علی، سردار عاشق حسین گوپانگ، محمود خان اچکزئی ، ڈاکٹر عارف علوی ، صاحبزادہ نذیر سلطان سمیت دیگر ارکان اور متعلقہ سرکاری اداروں اعلیٰ افسران نے شرکت کی۔ اجلاس میں وزارت منصوبہ بندی و ترقی کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیاگیا۔

(جاری ہے)

سیکرٹری پلاننگ نے اجلاس کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایاکہ کل 1022 منصوبے ہیں، ان میں سے 582 جاری منصوبے ہیں ، ان کیلئے 536ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔

420 نئے منصوبے ہیں، جن میں سے کچھ پی ایس ڈی پی سے تعلق رکھتے ہیں، کل منصوبوں کی لاگت 1318ارب روپے ہے۔ وزارتوں سے متعلقہ 1018 منصوبے ہیں جن کے لئے 866 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ سید خورشید احمدشاہ نے کہا کہ ان منصوبوں کی تکمیل میں ساڑھے 6 سال لگیں گے۔ اگر منصوبوں کی تکمیل میں تاخیر ہوئی تو ان کی لاگت 2 کھرب تک پہنچ جائے گی۔ وزارت کی طرف سے بتایا گیا کہ منصوبے کی مدت عام طور پر تین سے پانچ سال رکھی جاتی ہے۔

خورشید احمد شاہ نے کہا کہ منصوبوں کی معیاد کا جو طریقہ کار پاکستان میں ہے وہ دنیا میں کہیں نہیں۔ منصوبوں پر 7سال لگائے جاتے ہیں جس سے لازمی طور پر ان کی لاگت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ جاری منصوبے مکمل نہیں ہوتے لیکن نئے منصوبے شروع کردیئے جاتے ہیں۔ وزارت منصوبہ بندی و ترقی کی بریفنگ پر پی اے سی نے عدم اطمینان کا اظہار کیا اور سید خورشید احمد شاہ نے کہا کہ وزارت ہی بتائے کہ میں پی اے سی کو کیسے چلائوں ، یہ پی اے سی کے ساتھ مذاق ہے۔

انہوںنے کہا کہ نئے اسلام آباد ایئرپورٹ کی جانب سڑک کے منصوبے کی دستاویزات کے مطابق اس پر 2 ارب سے زائد رقم خرچ ہوئی ہے ۔ وزارت نے کہا کہ اس منصوبے پر ایک ارب 81کروڑ روپے خرچ کئے گئے ہیں۔ پی اے سی کے چیئرمین نے کہا کہ پھر دستاویزات میں غلطی کیوں کی گئی ہے۔ پی اے سی کو بھی وہی غلط خبر دی گئی جو پارلیمنٹ کو دی گئی اور پارلیمنٹ سے غلط اعداد وشمارمنظور کرائے گئے ہیں۔

انہوںنے کہا کہ ہمیں توقع تھی کہ ہمیں درست اعداد وشمار دیئے جائیں گے۔ جو دستاویزات پی اے سی نے طلب کی تھیں وہ وزارت کی جانب سے فراہم نہیں کی گئیں۔ وزارت منصوبہ بند ی وترقی نے پی اے سی کے سوال پر جواب میں بتایاکہ کراچی میں گرین لائن منصوبے پر 60 فیصد کام ہوا ہے۔ چیئرمین پی اے سی نے کہا کہ یہ منصوبہ مکمل ہوتا نہیں نظر آرہا۔ وزارت خزانہ کے حکام نے کہا کہ بجٹ مفروضوں پر نہیں بنتا، وزارت ترقی و منصوبہ بندی کی طرف سے جو کاغذات اور دستاویزات بھیجی گئی ہیں ان میں ایک ارب 80کروڑ روپے کی رقم ہی درج ہے۔

محمود خان اچکزئی کا کہنا تھا کہ وزارتوں کے سیکرٹریز اس ملک کے قابل ترین لوگ ہیں ۔شیخ روحیل اصغر نے کہاکہ سیکرٹری خود حج پر گئے ہیں لیکن جو لوگ نیچے کام کررہے ہیں ان کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے ۔ پی اے سی نے آئندہ ماہ 4 اکتوبر کو وزارت خزانہ ، وزارت ترقی و منصوبہ بندی اور وزارت مواصلات کو طلب کرتے ہوئے ہدایت کی کہ وزارتوں کے سیکرٹریز اپنے ہمراہ صرف متعلقہ افراد کو ہی لائیں۔