میانمارمیںروہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کی جا رہی ہے،

میانمارحکومت پر سفارتی دبائو بڑھایا جائے تاکہ روہنگیا پر ظلم وستم کو روکا جا سکے ،روہنگیا خواتین اور بچوں کی مشکلات مردوں سے کہیں زیادہ ہیں میانمار حکومت مظالم چھپانے کیلئے میڈیا کو متاثرہ علاقے میںرسائی نہیں دے رہی، مقررین

بدھ 13 ستمبر 2017 18:18

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 13 ستمبر2017ء) تحقیقی ادارہ مسلم انسٹیٹیوٹ کے زیر اہتمام ’’میانمار کے بے وطن روہنگیا مسلمانوں کی موجودہ حالتِ زار‘‘ کے عنوان سے مذاکرے کا انعقاد کیا گیا۔ پاکستان کے میانمار میں سابق سفیر امجد عباسی، پاکستان کے سابق سفیر برائے میانمار محمد قربان، اسسٹنٹ پروفیسر اسلامک یونیورسٹی سوزک سیجو، صدر روہنگیا فیڈریشن خاران فردوس شیخ ، پبلک ریلیشنز کوآرڈینیٹر مسلم انسٹیٹیوٹ طاہر محمود اور سابق سفیر انور شادانی نے اپنے خیا لات کا اظہار کیا۔

مذاکرے کا مقصد عالمی برادری کی توجہ روہنگیا کی مخدوش صورتحال کی جانب مبذول کروانا تھی تاکہ عالمی برادری بالخصوص مسلمان ممالک برما کی حکومت پر زور دیں کہ وہ روہنگیا پر ہونے والے ظلم و بربریت کی فوری روک تھام کرے۔

(جاری ہے)

مقررین نے کہا کہ میانمار حکومت کی جانب سے روہنگیا کو بنگلہ دیش کا غیر قانونی پناہ گزین کہا جاتا ہے ، روہنگیا برطانوی سامراجی قبضے سے 1962تک میانمار کے رہائشی اور اسی علاقے کے شہری تھے اس کے بعد حکومت کی جانب سے مسائل کا آغاز ہوا جو کہ 2012 کے بعد گمبھیر صورتحال اختیار کر گیا جس میں برما حکومت کے عائد کردہ قوانین کے مطابق روہنگیامسلمان 1823سے پہلے اپنی رہائش برما میں ثابت نہیں کرپا رہے وہ برما کے شہری نہیںکیا یہ ظلم نہیں ہی کئی تاریخی حوالہ جات سے معلوم ہوتا ہے کہ کئی صدیاں قبل بھی اس علاقے میں مسلمان آباد تھی- ۲۸۹۱ کے میانمار کے قانون کے باعث تقریباً1.2ملین روہنگیا مسلمان بے وطنی کی کیفیت میں زندگی گزار رہے ہیں جن میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد ہے جن کی مشکلات مردوں سے کہیں زیادہ ہیں ۔

میانمارکا جغرافیہ بھی بہت اہمیت کا حامل ہے جہاں بے شمار قدرتی وسائل موجود ہیں، میانمار کی حکومت اب روہنگیا کی نسل کشی کی پالیسی پر عمل کر رہی ہے اور حالات بتا رہے ہیں کہ شاید یہ آخری آپریشن ہو جس میں تمام روہنگیا کو قتل کردیا جائے یا علاقہ بدر کر دیا جائے، امن کی نوبل انعام یافتہ آن سانگ سوچی نے بھی مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے بلکہ وہ روہنگیا مسلمانوںکے خلاف اور حکومت کے حق میں بات کر رہی ہے ، میانمار میں روہنگیا کے ہزاروںمکانات جلا کے راکھ کر دیئے گئے ہیں اور ہزاروں بے گناہ افراد کو جان سے مار دیا گیاہے میڈیا کو اس علاقے میں جانے نہیں دیا جا رہا تا کہ حکومتی بربریت کو چھپایا جا سکے تین لاکھ کے قریب روہنگیا افراد گزشتہ چند ہفتوں میں بنگلہ دیش کی جانب ہجرت پر مجبور ہوئے ہیں۔

اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق روہنگیامسلمان دنیا کی مظلوم ترین اقلیت ہیں۔اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق وہ بنیادی انسانی حقوق سے بھی محروم ہیں انہیں شادی تک کرنے کے لیے مجاز اتھارٹی سے اجازت نامہ لینا پڑتا ہے اوران سے حکومتی پروجیکٹس میں بیگار لی جاتی ہے جو کہ انٹر نیشنل لیبر لاء کے بھی خلاف ورزی ہے۔ وہ سیاسی پناہ کے لیے دربدر ہیںان پر ظلم و ستم کا سلسلہ گزشتہ چار پانچ دہائیوں سے جاری ہے روہنگیاکی آباد کاری کے لیے مستقل بنیادوں پر قانون سازی کی ضرورت ہے ۔

عالمی قوتوں نے اپنے تجارتی اور معاشی فوائد کے حصول کی خاطر روہنگیاکے لیے عملی قدم نہیں اٹھایا ۔ ترکی نے روہنگیا کی دادرسی کے لیے اپنا کردار اداکیاعالمی برادری کو بھی ترکی کے نقش قدم پر چلنے کی ضرورت ہے اور ہمیںروہنگیا کی دادرسی کے لیے خود سے بھی عملی اقدام کرنے ہوں گے۔ اقوام متحدہ میں اس مسئلے کو اٹھایا جائے اور اقوام متحدہ اپنے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے اپنی ذمہ داری ادا کرے اور اس انسانی المیہ کا سدباب کیا جائے ، او آئی سی کا ہنگامی اجلاس بلا کر روہنگیا کے مظلوم مسلمانوں کی مدد کے لئے عملی اقدام کرنا چاہیئے، اسی طرح مسلم ممالک اپنی اپنی حیثیت میں روہنگیا کی مدد کریں۔

نہ صرف مسلمان ممالک بلکہ امریکہ ، برطانیہ اور دوسرے مغربی ممالک بھی اپنا کردار ادا کریں۔ روہنگیا کے مہاجرین کی آبادکاری کے لئے اور انکی روزمرہ کی ضروریات پوری کرنے کے لئے فنڈز کا اہتمام کیا جائے،میانمار کی حکومت پر سفارتی دبائو بڑھایا جائے تاکہ روہنگیا پر ظلم و ستم کا سلسلہ تھم سکے۔ عالمی قوتوں کو اپنا کردار عملی طور نبھانے کی ضرورت ہے۔

مقررین نے کہا کہ روہنگیا، کشمیر ، شام ،بوسنیاوغیر ہ میں مسلمانوں کے لیے بہت سے مسائل ہیں ان پر مستقل بنیادوں پر جامع پالیسی بنانا ہمارا فریضہ ہے ان مسائل کی وجہ سے اضطراب میں اضافہ ہو رہا ہے مسلمانوں میں بڑھتے ہوئے اضطراب کا جلد از جلد سدباب کرنے کی ضرورت ہے خصوصا روہنگیا کے مسئلہ کو انسانی بنیادوں پر جلد سے جلد حل کیا جائے ۔مذاکرے کے اختتام پر مقررین سے سوال و جواب ہوئے۔مذاکرے میں مختلف تھنک ٹینکس کے نمائندگان، محققین، یونیورسٹیز کے طلباء، اساتذہ، صحافی اور دانشور حضرات نے شرکت کی۔

متعلقہ عنوان :